بهشت ارغوان | حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها

بهشت ارغوان | حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها

ختم صلوات

ختم صلوات به نیت سلامتی و تعجیل در ظهور امام زمان (عج الله تعالی فرجه الشریف)

طبقه بندی موضوعی

۱۴۸ مطلب با موضوع «تغییر زبان» ثبت شده است

واقعہ فدک اورحضرت زہرا(ع) کا ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ہماری غرض جناب فاطمہ زہرا(ع)کی زندگی کے ان واقعات کی تشریح کرنا ہے جو لوگو ں کے لۓ عملی  درس کی حیثیت رکھتے ہیں البتہ صدراسلام سے لے کر آج تک مورد بحث قرار پانے والے اس حساس اور اہم موضوع پر پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات چاہتے ہیں جس پر زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہۓ اور واقعہ کو علمی اور تحقیقی لحاظ سے مورد بحث قرار دیناچاہۓ لہذا ہم اس موضوع پر ذرا تفصیل سے نظر ڈال رہے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے ۔

دختر رسول حضرت زہرا(س)کی دوسری حکمت عملی کہ جس کا تقریبا" سبھی مورخین نے ذکر کیا ہے  یہ تھی کہ آپ فراق پیغمبر میں بہت زیادہ گریہ کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ  " بکائین تاریخ " میں آپ کا نام بھی شامل ہے وہ زہرا(س)جو بچپن میں ماں کے سایۂ شفقت سے محرومی کے بعد صبر و بردباری کا مجسمہ نظر آتی ہیں آخر باپ کی رحلت کے بعد اس بیتابی کے ساتھ نالہ و شیون کرنا کسی مصلحت سے خالی کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ یقینا" دختر رسول(ص)کا گریہ، اپنے باپ کی امت کو ہوشیار و بیدار کرنے کی غرض سے تھا، باپ کے فراق میں کیا جانے والا یہ گریہ، اس سے بھی بڑی مصیبتوں کے بیان و اظہار کا ذریعہ بن گیا تھا، باپ کی جدائی کے ضمن  میں ہی دختر رسول(ص)امت اسلامیہ کو درپیش خطرات سے انہیں آگاہ فرماتیں ۔ شاید اسی لئے کبھی باپ کی قبر پر، کبھی شہدائے احد کے سرہانے اور کبھی بقیع میں جا کر رویا کرتی تھیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مراکز تھے ۔ اور شاید اسی حساسیت کے تحت علی ابن ابی طالب سے شکایت کی گئی تھی کہ " فاطمہ کو رونے سے منع کیجئے ان کے رونے سے ہمارے کاموں میں خلل پڑتا ہے " حتی وہ درخت کہ جس کے نیچے بیٹھ کر آپ بقیع کے قریب رویا کرتی تھیں کٹوا دیا گیا کہ یہ سلسلہ بند ہوجائے ۔

معصومۂ عالم کی زندگی کے آخری ایام میں، ام المؤمنین جناب ام سلمہ ان کی ملاقات کو آتی ہیں، احوال پرسی کرتی ہیں اور ام المصائب حضرت زہرا(س) جواب میں فرماتی ہیں : میرا حال یہ ہے کہ بابا پیغمبر اسلام(ص) کے فراق نے غم و اندوہ اور ان کے وصی پر کئے جانے والے مظالم نے الم و افسوس میں گھیر رکھا ہے، خدا کی قسم لوگوں نے ان کی حرمت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور ان کے مقام امامت و رہبری کو کتاب خدا کی تنزیل اور نبی خدا کے ذریعے کی گئی تاویل کے خلاف ان سے چھین لیا ہے ۔ خدا کی قسم اگر خلافت کی زمام جس طرح کہ خدا کے رسول(ص) نے ان کے ہاتھوں میں دی تھی، اگر ان کے ہاتھ میں رہنے دیتے اور ان کی اطاعت و پشتپناہی کرتے تو وہ ان کی بڑی ہی نرم روی سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے اور فلاح و نجات کے صاف و شفاف شیریں چشمے سے ان کو سیراب کردیتے ۔

نبی اکرم(ص) کے بعد حضرت علی(ع) کو ملت اسلامیہ کی عام قیادت سے محروم کردینا اور اسلامی معاشرہ سے اس کی مادی و معنوی رفاہ و فلاح چھین لینا کتنا بڑا تاریخی ظلم ہے جو پوری عالم بشریت پر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کو، اس وقت صرف حضرت زہرا(س) نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ اور جب ایک سننے والا ملا تو ام المؤمنین ام سلمہ کے سامنے اس کا اعلان کردیا۔ جی ہاں ! صرف وہ سمجھیں تھیں کہ کس ہدایت و بینہ اور ترقی و کمال کی ظرفیت سے معاشرہ کو محروم کردیا گیا ہے ۔ علی ابن ابی طالب(ع) کا سراسر وجود حق تھا اور ان سے صراط مستقیم کی شعاعیں پھوٹتی تھیں ایک چشمہ حکمت تھا جو ہر قسم کی آمیزش اور نجاست سے پاک تھا اور رہروان حق کی تشنگی دور کرسکتا تھا کیونکہ وہ جو کہتے تھے سب سے پھلے خود اس پر عمل کرتے تھے، دراصل، رسول اسلام(ص) اپنے بعد کے تمام حالات سے باخبر تھے لہذا انہوں نے خدا کے حکم سے فاتح خیبر حضرت علی(ع) کے لئے حضرت زہرا کی مانند ہمسر نہیں بلکہ ایک محکم و استوار پشتپناہ منتخب کیا تھا ۔ اسی لئے امیرالمؤمنین(ع) کی ولایت کے حامیوں میں، درخشاں ترین ذات، حضرت زہرا(ع)کی ذات والا صفات تھی، جن کے مقام و منزلت کے اظہار و اعلان میں رسول اسلام(ص) نے خاص اہتمام سے کام لیا اور حق و باطل کی شناخت کے لئے حضرت زہرا(س) کو معیار و میزان قرار دے دیا ۔ اگرچہ علی ابن ابی طالب(ع) کی ولایت و امامت کے مخالفین کے مقابلے میں، حضرت علی(ع) کے ساتھ تن تنہا حضرت زہرا کی معیت ان کی حقانیت کے ثبوت کے لئے کافی ہے ۔ لیکن دختر رسول(ص) نے اس پر قناعت نہیں کی۔ دختر رسول(ص) نے اپنے پورے وجود اور وسائل و اختیارات کے ساتھ اس  ناانصافی کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ۔ اس سلسلے میں، علی و فاطمہ کی مشکل یہ تھی کہ ابھی مسلمانوں کے اندر وہ بلوغ فکری پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ مسئلہ ولایت کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور نہ ہی دشمنان ولایت کی نیتوں کی بھرپور شناخت ممکن ہوسکی تھی ۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات قابل یقین نہیں تھی کہ جو افراد کل تک ہرقدم پر نبی(ص) کے ساتھ تھے انہیں اس قدر جلد مقام و منصب کی خواہش اسلام اور پیغمبر اسلام(ص)سے اس طرح دور کر دے گی !!

جمادی الثانی کو ہجرت سے 8 سال قبل 5 بعثت میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت ہوئی ۔ آپ (ع) کو آغاز بچپن سے ہی اعلی الہی معارف سے آگاہی حاصل تھی اور رسول اکرم (ص) اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا جیسے والدین کے سائے میں پرورش پائی ۔ خاندان وحی میں پرورش کی وجہ سے حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کمال و معنویت کی بلند ترین منزل تک پہنچیں ۔ آپ نے حضرت علی (ع) کے ساتھ جو خود حق و انصاف اور تقوی کے مظہر تھے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بھی ایک  بیوی ، ماں اور ایک ذمہ دار انسان کا گراں قدر کردار ادا کیا ۔ آپ نے حضرت علی (ع) کے گھر میں ایثار و سخاوت ، صبر و تحمل ، قناعت ، عبادت الہی اور ضرورت مندوں کی مدد جیسی صفات کو بہترین انداز میں اجاگر کیا امام حسن (ع) امام حسین (ع) اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی عظیم تاریخ ساز شخصیات نے آپ کی ہی آغو‎ش میں پرورش پائی ۔ آپ (س) سماجی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حق کا دفاع بھی کرتی رہیں ۔ قابل ذکر ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے آج کے دن کو ایران میں خواتین اور ماؤں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے

اقبال نے حضرت فاطمہ زہرا(س) کے کردار کو عورتوں کے لئے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بیٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تما م عورتوں کے لئے نمونہ ہے۔

 

فررع تسلیم را حاصل بتول

مادراں رااسوہ کامل بتول

فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند

چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند

 

اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے۔ انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے لئے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا۔ اسی لئے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں۔

 

اگر پندے ز درو یشے پذیری

ہزار اُمت بمیرد تو نہ میری!

بتو لے باش و پنہاں شواز یں عصر

کہ در آغوش شبیرے بگیری!

ولایت امیرالمومنین کے اثبات کی راہ میں دختر رسول(ص)نے نبی اکرم کے اصحاب و انصار کے درمیان اپنے فرزند حسن و حسین علیہم السّلام کے مخصوص مقام و منزلت سے بھی استفادہ کیا ۔ حسنین(ع)کے ساتھ نبی اکرم(ص)کی محبتوں کے مناظر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تھے اور انہوں نے نبی(ص)کی زبانی سنا تھا کہ " حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں "  گھر میں بیٹھے رہیں یا میدان میں نکل آئیں ہرحال میں دونوں امام ہیں، یہی نہیں بلکہ مباہلہ اور بیعت رضوان کی مانند اہم واقعوں میں بھی رسول اسلام(ص)نے ان کے نمایاں مقام و منزلت کا تعارف کرا دیا تھا لہذا معصومۂ عالم نے کئی تاریخی موقعوں پر ان کے وجود سے استفادہ کیا اور اپنی مہم میں ان کو اپنے ساتھ لے کر گئیں ۔ واقعۂ ثقیفہ کے بعد، مسلسل چار دن، حضرت علی(ع)کے حق کی حمایت میں مہاجرین و انصار کے دروازوں پر حسن و حسین(ع)کے ساتھ گئیں اور انہیں امیرالمومنین کی حمایت و مدد کی دعوت دی ۔ جب علی(ع)پر ہجوم کیا گیا تو ان کی حمایت کے لئے مسجد کے دروازہ تک گئیں اور سختی سے علی کےحق کی حمایت کی اس وقت بھی حسن و حسین(ع)ماں کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ تھے ۔ قبر رسول(ص)اور بقیع پر گریے کے لئے جاتیں تو بھی حسنین کو ساتھ لے کر جاتی تھیں ۔

حضرت فاطمہ(س) کی جبیں پر پیغمبر اسلام (ص) بوسہ دیتے تھے ان کے احترام میں حضور کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی زندگی ایک ایسی ہی زندگی ہےکہ آپ بیٹی ہو نے کے رشتہ سے رسول خدا کی وارث ہیں، رفیق زندگی ہونے کے اعتبار سے شریک امامت ہیں ، اورام الائمہ ہو نے کے لحاظ سے ہر امام کے کمال و جمال کی آئینہ دارہیں، جوکچھ گیارہ اماموں کے کردار سے کل ظاہر ہو نیوالا ہے اس کا پر تو معصومہ عالم کی زندگی میں جلوہ گرہے اور اولادکی منزل میں بنوھاجمع کا صیغہ استمال کردیا تا کہ زہرا جملہ اوصاف وکمالات کی مصدر ومرکز قرارپا جائیں تاریخ نے صاف واضح کردیا ہےکہ کفار ومشرکین کے ورثہ دار شام کے حکام ہیں اور محمد مصطفی کے وارث علی بن ابی طالب(ع) اور حسن و حسین بن علی علیہم السلام ہیں اٹھارہ سال کی مختصر عمر اور اس میں مصائب وآلام کی یہ کثرت کہ خود اپنے حال کا مرثیہ پڑھا ''مجھ پر اتنے مصائب ڈالےگئے کہ اگر دن پر پڑتے توراتوں کی طرح تاریک ہوجاتے لیکن کیا کہنا بنت رسول (ص)کے صبر اور استقلال کا کہ نہ ذاتی اوصاف و کمالات میں کوئی فرق آیا نہ خدمت مذہب وملت سے انحراف فرمایا، قوم ستاتی رہی اور سیدہ ہدایت کی دعائیں دیتی رہیں دنیا گھر جلاتی رہی اور فاطمہ فرض تبلیغ ادا کرتی رہیں تاریخ گواہ ہے کہ نہ اس شان کا باپ دیکھا ہے نہ اس شان کی بیٹی، نہ اس کردار کا شوہر دیکھا ہے نہ اس عظمت کی زوجہ ، نہ اس جلالت کے بچے دیکھے ہیں نہ اس رفعت اور منزلت کی ماں ، رشتوں کے ساتھ فضیلتیں سیدہ کے گھر کا طواف کر رہی تھیں اور نسبتوں کے ساتھ عظمتیں فاطمہ کی ڈیوڑھی پر خیمہ ڈالے ہوئے ہیں ذاتی فضائل کا یہ عالم تھا کہ مصلائے عبادت پر آگئیں تو دنیا نور عبادت سے منور ہوگئی صبح کے وقت ایک نور ساطع ہوتا ظہر کے وقت دوسرانور اور مغرب کے ہنگام تیسرا نور، مدینہ نور زہراسے منور ہوجاتا اور فضیلت آواز دیتی نمازیں پڑھ کر خود مقرب بارگاہ بن جانا امت کا کام ہے اور نماز سے کائنات کو منور کر دینا بنت رسول کی منزل ہے اور ہمیں اعتماد ہے کہ ہم دنیا میں اپنی بد نفسی کے بنا پر غافل ہوجائیں تو ہوجائیں لیکن وہ قیامت کے دن اپنے کرم سے غافل نہ ہوں گے جب ان کا دامن ہاتھ میں ہے تو جنت بھی اپنی ہے اور کوثر بھی اپناہے خدا بھی اپنا ہے اور رسول بھی اپنا ہے ایمان بھی اپناہے اور کعبہ بھی اپنا ہے قرآن بھی اپناہے اور مختصر یہ ہے کہ ہم ان کے ہوگئے تو کل کائنات اپنی ہے پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد انکے بعض صحابہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر کی حرمت پامال کرنے پر کمر بستہ ہوگئے خانہ وحی پر مسلسل حملوں اور دھمکیوں سے پیغمبر اسلام کی بیٹی تنگ آگئیں بعض صحابہ خلافت کو آنحضور کے گھر سے نکال کر اپنے گھر لے گئے اور کچھ ہی عرصے کے بعد خلافت کو ملوکیت کا لباس پہنا کر اسلام کا شیرازہ بکھیر دیا وہ بی بی دوعالم جس کی جبیں پر پیغمبر اسلام بوسہ دیتے تھے جس کے احترام میں حضور کھڑے ہوجاتے تھے جس کے بارے میں حضور (ص) نے اصحاب سے بار بار کہا کہ فاطمہ میری پارہ جگر ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی ۔۔۔فاطمہ کی عظمت کو آنحضور (ص)نے بارہا اصحاب کے سامنے بیان فرمایا لیکن پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد بعض اصحاب نے حضور کی تمام وصیتوں کو پس پشت ڈال دیا اور انکی بیٹی کو اتنا ستایا کہ فاطمہ زہرا (س) نے وصیت کی کہ میرے جنازے میں ان صحابہ کوبالکل شرکت نہ کرنے دی جائے جنھوں نے میرا حق غصب کیا اور مجھ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تاریخ طبری اور صحیح مسلم میں ہے کہ پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س)نے ابوبکر اور عمر سے مرتے دم تک کلام نہیں کیا اور ابو بکر نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کاش میں نے نبی اکرم (ص)کی بیٹی کو پریشان نہ کیا ہوتا، آہ ! میں نے اپنی بیٹی کا تواحترام کیااور سرکار دوعالم کی بیٹی کو خون کے آنسو رلایا ، جب نبی مکرم (ص) اپنی فاطمہ (س) کے بارے میں مجھ سے سوال کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا ؟ یہی کہوں گا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے امت کو متحد کرنے کے لئے خلافت کو آپ (ص) کے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کے گھر سے نکال لیا فدک کو فاطمہ سے چھین کر بیت المال میں شامل کرلیا فاطمہ فدک کا مطالبہ کرتی رہیں اس نے علی (ع) و ام ایمن اور حسن و حسین (ع) کو گواہی کے طور پر پیش کیا لیکن میں نے سب کی گواہی مسترد کردی فاطمہ روتی رہی اور میں دیکھتا رہا ، علی (ع) گریہ کرتے رہے اور میں دیکھتا رہا حسن اور حسین (ع) سسکیاں لیتے رہے اور میں دیکھتا رہا ،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سقیفہ کے اجماع نے امت کو متحد کرنے کےبجائے اس کو کہیں تہتر فرقوں میں تقسیم تو نہیں کردیا ؟ جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ میری امت میں تہتر فرقے ہونگے ان میں سے ایک جنت میں جائے گا باقی جہنم میں جائیں گے


ایسے میں  نبی  اکرم(ص) کی  بیٹی  نے دو پہلوؤں سے اپنی  جد و جہد شروع کی، ایک طرف اسلامی حقائق  سے  پردہ  اٹھا کر  " ولایت"  کے حقیقی مفہوم و مطالب سے لوگوں کو آشنا بنایا اور ہوشیار و خبردار کیا، دوسری طرف وہ عظیم خطرات جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے دہن کھولے کھڑے تھے پوری وضاحت کے ساتھ گوشزد کئے ۔ اس راہ میں، جناب فاطمۂ زہرا(س) نے جو اپنے مقام و مرتبے سے اچھی طرح واقف تھیں، بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ چنانچہ بہتر طور پر موضوع کی اہمیت سمجھنے کے لئے فرض کرلیجئے تاریخ اسلام نے دختر رسول کا جو کردار اپنے دامن میں محفوظ رکھا اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اگر اس طرح سے آپ میدان عملی میں نہ اترتیں گھر پر ہجوم کرنے والوں سے احتجاج نہ کرتیں، پہلو شکستہ نہ ہوتا اور سردربار، مسجد النبی میں جا کر اپنا وہ آتشیں خطبہ نہ دئے ہوتیں اور تمام مردوں اور عورتوں پر حقائق روشن و آشکار نہ فرماتیں تو کیا صورت حال پیش آتی ؟! دراصل علی ابن ابی طالب کی حقانیت و مظلومیت، حتی قریب ترین دوستوں پر بھی تشنۂ تشریح رہ جاتی ۔ بہت سے تاریخی حقائق پردۂ خفاء میں رہ جاتے اور بہت سے چہرے " صحابیت " اور " خطائے اجتہادی " کی مانند اصطلاحات کے اندر گم ہوگئے ہوتے ۔ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کون تھا جو ان حقائق کی توضیح و تشریح کرتا ؟! سادہ لوح مورخین و تذکرہ نویس اور درباری محدثین و مفسرین اسلامی حقائق کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیتے ۔ رسول اسلام(ص) کے اہلبیت(ع) اور محافظین قرآن عترت رسول(ص)کے ساتھ جسارتوں کی "تاریخی حدیں" کیسے معین ہوتیں ؟ یہ کام، تنہا اور تنہا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کرسکتی تھیں اور انہوں نے کیا ۔ مسئلہ کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ اگر ان تاریخی لمحات میں جناب فاطمہ زہرا(س)سکوت اختیار کرلیتیں تو مخالفین ولایت کو اپنے عمل و رفتار کا جواز مل جاتا بلکہ وہ اپنی حکومت صحیح ثابت کرنے کو اور  نبی اکرم(ص)کی نسبت اپنے احترام کے اظہار کے لئے اعلی ترین سطح پر حضرت زہرا(س) کی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے اور ہدیہ ؤ تحائف کے در سیدہ پر انبار لگا دئے جاتے تمام منبروں پر ان کی تعریفیں ہوتیں جیسا کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ کے سلسلے میں یہ سب کچھ کیا ہے اور ان کے  "ام المومنیں" ہونے سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے ۔ اگر آپ اس زاویہ سے دیکھیں تو کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ رسول اسلام(ص) کی بیٹی نے اسلام اور ولایت کی حفاظت کے لئے  اپنی عزت و وقار اور حرمت و  حیثیت ہر چیز کو قربان کیا ہے اور حفظ دین کے لئے اپنی جان کی قربانی دے کر "ولایت امیرالمومنین" کی  پشتپناہی کی ہے ۔

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھا ہے۔ اٹھارہ سال کی مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار عمر، اس قدر زیبا، پر شکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے محققین قلمبند کرچکے ہیں پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدۃ النساء العالمین کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہوسکا ہے۔  آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہا ہے ۔ پھر بھی علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی چھٹی جلد میں معصومۂ عالم کی ولادت سے متعلق احادیث و روایات میں نقل شدہ جن تمہیدوں اور تذکروں کو قلمبند کیا ہے وہ خود ایک مبارک و مسعود وجود اور غیر معمولی انسان کے ظہور پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح کی روایات حتی اہلبیت پیغمبر(س)میں بھی کسی اور کے لئے نقل نہیں ہوئی ہیں ۔ خانۂ وحی و رسالت میں جس وقت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں، حضور اکرم(ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم(ص) کو خدا نے کوئی بیٹا طول عمر کے ساتھ کیوں عطا نہیں فرمایا جو بھی بیٹے دیئے بچپنے میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے ۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو «ابتر» اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے آپ تو  «بے جانشین»  اور «بے چراغ»  ہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا(س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام(ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورۂ  کوثر نازل کردی ۔ 

"اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے"

سورۂ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھا ہے سورۂ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک دن ہم مسجدالنبی میں بیٹھے تھے ایک قاری نے آیت فی بیوت اذن اللہ ۔۔۔ کی تلاوت کی میں نے سوال کیا : اے خدا کے رسول یہ گھر کون سے گھر ہیں ؟ حضرت نے جواب میں  فرمایا : " انبیا(ع) کے گھر ہیں پھر اپنے ہاتھ سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف اشارہ فرمایا ۔" مورخین نے جیسا کہ لکھا ہے : جناب فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی، سخت ترین مصیبتوں سے روبرو رہی ہے اور آپ نے ہمیشہ اپنی بے مثال معنوی قوتوں اور جذبوں سے کام لیکر نہ صرف یہ کہ مشکلات کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ہر مرحلے میں اپنے مدبرانہ عمل و رفتار اور محکم و استوار عزم سے بڑے بڑے فتنوں اور سازشوں کا سدباب کیا ہے ۔ گویا ان آزمائشوں سے گزرنے کے لئے قدرت نے ان کا انتخاب کیا تھا کیونکہ کوئی اور ان کو تحمل نہیں کرسکتا تھا اور یہ وہ حقیقت ہے جو صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر محقق جانتا اور تائید کرتا ہے ۔ معصومۂ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام(ص) نے کہ جن کی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ(س) کی حیات کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیا ہے ۔ ام المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ(س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے سفر سے جب بھی پلٹٹے بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ(س)کی احوال پرسی کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا : خدا نے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا، کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟! تو رسول اکرم(ص) نے جواب دیا :

«فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں»

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص)

 نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا :

خدا نے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا،

 کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟!

 تو رسول اکرم(ص) نے جواب دیا :

«فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں»

جمادی الثانی سن پانچ بعثت وہ مبارک و مسعود دن ہے کہ اسی دن کاشانۂ ہستی میں خداوند وحدہ لاشریک کی وہ کنیز رونق افروز عالم ہوئی جو محلّ اسرار ربّ العالمین اور مظہر جمال و کمال باری تعالیٰ ہے ۔ فخر موجودات ، رسول اسلام محمد مصطفی صلّی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی عزیز ترین ، یگانہ روزگار دختر ، ام المومنین حضرت خدیجۂ طاہرہ کی قیمتی ترین و پر افتخار ترین  یادگار ، امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کی مستحکم ترین پشتپناہ ، شریک و ہمسر اور گیارہ معصوموں کی ماں ، جو خود بھی عظیم الہی ذخیرہ اور اللّہ کی عظیم ترین حجتوں کی مخزن و معدن بھی ہے ، جو خود بھی تربیت محمدی کا معجزہ اور معجز نما نسل ائمہ کا مصدر و سرچشمہ بھی ہے ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا عصمتوں کا نچوڑ ہیں جسے دست قدرت نے سورۂ کوثر کی صورت میں ڈھال کر اپنے محبوب ترین حبیب کے حوالے کیا ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا وحی کی مترنم زبان اور انسانیت کی وہ جاوداں کتاب ہیں کہ جس کی شکوہ و عظمت کو دیکھ کر انبیاء و مرسلین علیہ السلام دم بخود اور فخر کائنات رسول اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نازاں و مفتخر ہیں اور ہمیشہ آپ کی زبان پر ”فداہا ابوہا“ کا فقرہ جاری رہا ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا عصمت و طہارت ، تقوی و عبادت ، صداقت و امانت ، تقدس و متانت ، رحمت و عطوفت ، ہدایت و تربیت ، عمل و خدمت ، قہر و مروت ، شجاعت و مظلومیت اور عشق و ولایت کا مظہر و دفتر ہیں ۔ آپ سب کو اس اکمل و اشرف خاتون جنت کا یوم ولادت مبارک ہو جس کو جبرئیل کے ذریعہ خدا نے فاطمہ ، رسول اسلام نے ”ام ابیہا“ قرآن نے” کوثر“ علی ابن ابی طالب نے نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد دوسرا ”رکن اسلام“ معصومین نے ”ام الائمہ“ اور اسلام نے” سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین “ قرار دیا ہے۔

 

حد ادراک بشر سے ماوراء میں فاطمہ( س  ) 
   مصطفی    کے    واسطے  حق کی  عطا   میں  فاطمہ   ( س)

 

طعنۂ ابتر کو سن کر احمد مختار نے  

جو خلوص دل سے مانگی وہ دعاہیں فاطمہ( س)

  

آفتاب دیں نبی ہیں ماہتاب دیں علی( ع  ) 

    اور ان دونوں چراغوں کی ضیا ہیں فاطمہ (س)

 

مدح کرتا ہے خدا تعظیم کرتے ہیں رسول( ص )  

دیکھئے قرآن و سنت میں کہ کیا ہیں فاطمہ( س)

 

عرش تک احمد گئے ہیں نور زہرا کے لئے  

 راز معراج رسول کبریا  ہیں   میں  فاطمہ( س)

 

عالم امکاں میں ان سے ماسوا کوئی نہیں  

ابتدا ہیں  فاطمہ اور انتہا   ہیں     فاطمہ( س)

 

مختصر تاریخ ہے یہ مذہب اسلام کی

احمد مرسل بنا ہیں اور بقا    ہیں فاطمہ( س)

 

نسل زہرا کے سبب باقی ہے نسل مصطفی ( ص  )

 سورۂ کوثر کا   کامل معجزہ    ہیں   فاطمہ   (س)
                                                           

ام المؤمنین عائشہ  (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کسی کو فاطمہ سلام اللّہ علیہا سے زیادہ سچا سوائے ان کے باپ کے نہیں پایا اور خصائص فاطمیہ کی ایک روایت کے مطابق ان کے والد ابوبکر نے آپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : ”انت معدن الحکمہ و موطن الہدی و الرّحمہ و رکن الدین و عین الحجۃ “ 

”آپ حکمت کا خزینہ، ہدایت و رحمت کا مرکز ، دین کی رکن و اساس اور خدا کی عین حجت و دلیل ہیں“ ۔

 بحار کی روایت کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام  سے فرمایا تھا : اے علی ، یہ میری بیٹی ہے جس نے اس کا احترام کیا میرا احترام کیا اور جس نے اس کی توہین کی گویا میری توہین کی ہے ۔ اور جب شادی کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا اے علی! تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ توحضرت علی علیہ السلام نے جواب دیا: ”خدا کی اطاعت و بندگی میں بہترین مدد گار“۔


 عصر حاضر کے مجدد اسلام رہبر کبیر حضرت امام خمینی(رہ) نے بجا طور پر فرمایا ہے : ”وہ تمام پہلو جو ایک عورت کے لئے اور ایک انسان کے لئے قابل تصور ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا میں جلوہ گر ہیں ایک روحانی ملکوتی عورت ایک بہ تمام معنی انسان ، تمام نسخۂ انسانیت، تمام حقیقت زن ، تمام حقیقت انسان ، ایک خاتون جو اگر مرد ہوتی تواللّہ کا رسول نظر آتی ”۔ اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللّہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں : ”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا کے مقام و مرتبہ کا احترام اور تکریم خود ایمان ، تقوی، علم ،ادب ،شجاعت ،ایثار ، جہاد ، شہادت اور ایک جملہ میں مختصر کرکے کہا جائے تو تمام مکارم اخلاق کی عزت و تکریم  ہے “۔ ”حضرت زہرا سلام اللّہ علیہا پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اورحضرت علی ابن ابی طالب کی زندگیوں میں کسی نور کی مانند یوں درخشاں ہیں کہ آپ کی زندگی کو نمونہ و مثال قرار دے کر تمام مسلمان خواتین خود کو ان کے دریائے معرفت و کرامت سے فیضیاب کر سکتی ہیں “۔ معصومۂ عالم جناب فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا کی زندگی صرف اہل زمین کے لئے نہیں عرش والوں کے لئے بھی رشک و غبطے کا سبب تھی ، ملائکہ آپ کی خدمت پر افتخار اور آپ کے در کی گدائی پر مباہات کیا کرتے تھے نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے آٹھ سال قبل ۔ 20 جمادی الثانی کی وہ بڑی ہی حسین و دل نواز سحر تھی،  خدا کا رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم عشق و محبت سے سرشار قلب و نگاہ کے ساتھ معبود حقیقی کی بارگاہ میں سر بسجود تھا ملیکۃ العرب ، ام المومنین خدیجۂ طاہرہ ایک خاص کیفیت کے ساتھ کسی نو مولود کےلئے سراپا چشم انتظار تھیں اور کچھ ہی دیر میں خانۂ کعبہ کے جوار میں مکۂ معظمہ کا ایک حسین ٹکڑا یعنی عشق و محبت سے معمور رسول اسلام کا پاکیزہ گھر، نور میں غرق ہوگیا اور پوری کائنات گنگنا اٹھی  ”خانۂ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم میں زیست مسکراتی ہے “ ۔

اے خدیجہ آپ کو یہ قابل افتخار بیٹی مبارک ہو جس کی پیدائش کی خدمات انجام دینے کے لئے حضرت ابراہیم خلیل اللّہ کی بیوی سارہ ، موسی عمران کی بہن کلثوم، عیسی دوراں کی ماں مریم اور زن فرعون حضرت آسیہ کو خدا نے عرش سے فرش پر بھیجا اور تہنیت و تبریک کے لئے اس کے مقرب ملائکہ  نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ خانہ رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا کیا آئیں عورت کو ایک نئی زندگی مل گئی جاہلی اوہام و خرافات میں گرفتار معاشرے کی زندہ در گور کر دی جانے والی بیٹیوں کی قسمت جاگ اٹھی ، دنیا کی بے جان اشیاء کی مانند بازاروں میں بیچ دی جانے والی یا شوہر کی موت کے بعد دوسرے اثاثوں کی مانند میراث میں تقسیم کردی جانے والی بیوی کو ماں کا وقار ، آدمیت و انسانیت کا درجہ اور معاشرے میں اعلیٰ حیثیت حاصل ہو گئی ۔ فاطمہ سلام اللّہ علیہا خورشید کی مانند درخشاں ہوئیں اور پوری دنیا کو محبت و آشتی کی روشنی اور عشق و سرور کی گرمی عطا کردی۔ نگاہوں میں وہ دلنواز منظر مجسم کیجئے : جناب فاطمہ زہرا سلام اللّہ علیہا نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش میں تشریف فرما ہیں عشق و محبت سے لبریز نگاہیں بیٹی کے معصوم چہرے پرجمی ہوئی ہیں بچی کے ننھے ننھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیتے ہوئے حضرت فرماتے ہیں :” فاطمہ ایک پھول ، ایک کلی یا ایک شگوفہ ہے “۔




خـــانه | درباره مــــا | سرآغاز | لـــوگوهای ما | تمـــاس با من

خواهشمندیم در صورت داشتن وب سایت یا وبلاگ به وب سایت "بهشت ارغوان" قربة الی الله لینک دهید.

کپی کردن از مطالب بهشت ارغوان آزاد است. ان شاء الله لبخند حضرت زهرا نصیب همگیمون

مـــــــــــادر خیلی دوستت دارم