حضرت فاطمہ(س) کی جبیں پر پیغمبر اسلام (ص) بوسہ دیتے تھے ان کے احترام میں حضور کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی زندگی ایک ایسی ہی زندگی ہےکہ آپ بیٹی ہو نے کے رشتہ سے رسول خدا کی وارث ہیں، رفیق زندگی ہونے کے اعتبار سے شریک امامت ہیں ، اورام الائمہ ہو نے کے لحاظ سے ہر امام کے کمال و جمال کی آئینہ دارہیں، جوکچھ گیارہ اماموں کے کردار سے کل ظاہر ہو نیوالا ہے اس کا پر تو معصومہ عالم کی زندگی میں جلوہ گرہے اور اولادکی منزل میں بنوھاجمع کا صیغہ استمال کردیا تا کہ زہرا جملہ اوصاف وکمالات کی مصدر ومرکز قرارپا جائیں تاریخ نے صاف واضح کردیا ہےکہ کفار ومشرکین کے ورثہ دار شام کے حکام ہیں اور محمد مصطفی کے وارث علی بن ابی طالب(ع) اور حسن و حسین بن علی علیہم السلام ہیں اٹھارہ سال کی مختصر عمر اور اس میں مصائب وآلام کی یہ کثرت کہ خود اپنے حال کا مرثیہ پڑھا ''مجھ پر اتنے مصائب ڈالےگئے کہ اگر دن پر پڑتے توراتوں کی طرح تاریک ہوجاتے لیکن کیا کہنا بنت رسول (ص)کے صبر اور استقلال کا کہ نہ ذاتی اوصاف و کمالات میں کوئی فرق آیا نہ خدمت مذہب وملت سے انحراف فرمایا، قوم ستاتی رہی اور سیدہ ہدایت کی دعائیں دیتی رہیں دنیا گھر جلاتی رہی اور فاطمہ فرض تبلیغ ادا کرتی رہیں تاریخ گواہ ہے کہ نہ اس شان کا باپ دیکھا ہے نہ اس شان کی بیٹی، نہ اس کردار کا شوہر دیکھا ہے نہ اس عظمت کی زوجہ ، نہ اس جلالت کے بچے دیکھے ہیں نہ اس رفعت اور منزلت کی ماں ، رشتوں کے ساتھ فضیلتیں سیدہ کے گھر کا طواف کر رہی تھیں اور نسبتوں کے ساتھ عظمتیں فاطمہ کی ڈیوڑھی پر خیمہ ڈالے ہوئے ہیں ذاتی فضائل کا یہ عالم تھا کہ مصلائے عبادت پر آگئیں تو دنیا نور عبادت سے منور ہوگئی صبح کے وقت ایک نور ساطع ہوتا ظہر کے وقت دوسرانور اور مغرب کے ہنگام تیسرا نور، مدینہ نور زہراسے منور ہوجاتا اور فضیلت آواز دیتی نمازیں پڑھ کر خود مقرب بارگاہ بن جانا امت کا کام ہے اور نماز سے کائنات کو منور کر دینا بنت رسول کی منزل ہے اور ہمیں اعتماد ہے کہ ہم دنیا میں اپنی بد نفسی کے بنا پر غافل ہوجائیں تو ہوجائیں لیکن وہ قیامت کے دن اپنے کرم سے غافل نہ ہوں گے جب ان کا دامن ہاتھ میں ہے تو جنت بھی اپنی ہے اور کوثر بھی اپناہے خدا بھی اپنا ہے اور رسول بھی اپنا ہے ایمان بھی اپناہے اور کعبہ بھی اپنا ہے قرآن بھی اپناہے اور مختصر یہ ہے کہ ہم ان کے ہوگئے تو کل کائنات اپنی ہے پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد انکے بعض صحابہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر کی حرمت پامال کرنے پر کمر بستہ ہوگئے خانہ وحی پر مسلسل حملوں اور دھمکیوں سے پیغمبر اسلام کی بیٹی تنگ آگئیں بعض صحابہ خلافت کو آنحضور کے گھر سے نکال کر اپنے گھر لے گئے اور کچھ ہی عرصے کے بعد خلافت کو ملوکیت کا لباس پہنا کر اسلام کا شیرازہ بکھیر دیا وہ بی بی دوعالم جس کی جبیں پر پیغمبر اسلام بوسہ دیتے تھے جس کے احترام میں حضور کھڑے ہوجاتے تھے جس کے بارے میں حضور (ص) نے اصحاب سے بار بار کہا کہ فاطمہ میری پارہ جگر ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی ۔۔۔فاطمہ کی عظمت کو آنحضور (ص)نے بارہا اصحاب کے سامنے بیان فرمایا لیکن پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعد بعض اصحاب نے حضور کی تمام وصیتوں کو پس پشت ڈال دیا اور انکی بیٹی کو اتنا ستایا کہ فاطمہ زہرا (س) نے وصیت کی کہ میرے جنازے میں ان صحابہ کوبالکل شرکت نہ کرنے دی جائے جنھوں نے میرا حق غصب کیا اور مجھ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تاریخ طبری اور صحیح مسلم میں ہے کہ پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س)نے ابوبکر اور عمر سے مرتے دم تک کلام نہیں کیا اور ابو بکر نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کاش میں نے نبی اکرم (ص)کی بیٹی کو پریشان نہ کیا ہوتا، آہ ! میں نے اپنی بیٹی کا تواحترام کیااور سرکار دوعالم کی بیٹی کو خون کے آنسو رلایا ، جب نبی مکرم (ص) اپنی فاطمہ (س) کے بارے میں مجھ سے سوال کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا ؟ یہی کہوں گا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے امت کو متحد کرنے کے لئے خلافت کو آپ (ص) کے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کے گھر سے نکال لیا فدک کو فاطمہ سے چھین کر بیت المال میں شامل کرلیا فاطمہ فدک کا مطالبہ کرتی رہیں اس نے علی (ع) و ام ایمن اور حسن و حسین (ع) کو گواہی کے طور پر پیش کیا لیکن میں نے سب کی گواہی مسترد کردی فاطمہ روتی رہی اور میں دیکھتا رہا ، علی (ع) گریہ کرتے رہے اور میں دیکھتا رہا حسن اور حسین (ع) سسکیاں لیتے رہے اور میں دیکھتا رہا ،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سقیفہ کے اجماع نے امت کو متحد کرنے کےبجائے اس کو کہیں تہتر فرقوں میں تقسیم تو نہیں کردیا ؟ جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ میری امت میں تہتر فرقے ہونگے ان میں سے ایک جنت میں جائے گا باقی جہنم میں جائیں گے