جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھا ہے۔ اٹھارہ سال کی مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار عمر، اس قدر زیبا، پر شکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے محققین قلمبند کرچکے ہیں پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدۃ النساء العالمین کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہوسکا ہے۔ آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہا ہے ۔ پھر بھی علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی چھٹی جلد میں معصومۂ عالم کی ولادت سے متعلق احادیث و روایات میں نقل شدہ جن تمہیدوں اور تذکروں کو قلمبند کیا ہے وہ خود ایک مبارک و مسعود وجود اور غیر معمولی انسان کے ظہور پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح کی روایات حتی اہلبیت پیغمبر(س)میں بھی کسی اور کے لئے نقل نہیں ہوئی ہیں ۔ خانۂ وحی و رسالت میں جس وقت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں، حضور اکرم(ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم(ص) کو خدا نے کوئی بیٹا طول عمر کے ساتھ کیوں عطا نہیں فرمایا جو بھی بیٹے دیئے بچپنے میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے ۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو «ابتر» اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے آپ تو «بے جانشین» اور «بے چراغ» ہیں ۔ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا(س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام(ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورۂ کوثر نازل کردی ۔
"اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے"
سورۂ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھا ہے سورۂ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک دن ہم مسجدالنبی میں بیٹھے تھے ایک قاری نے آیت فی بیوت اذن اللہ ۔۔۔ کی تلاوت کی میں نے سوال کیا : اے خدا کے رسول یہ گھر کون سے گھر ہیں ؟ حضرت نے جواب میں فرمایا : " انبیا(ع) کے گھر ہیں پھر اپنے ہاتھ سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف اشارہ فرمایا ۔" مورخین نے جیسا کہ لکھا ہے : جناب فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی، سخت ترین مصیبتوں سے روبرو رہی ہے اور آپ نے ہمیشہ اپنی بے مثال معنوی قوتوں اور جذبوں سے کام لیکر نہ صرف یہ کہ مشکلات کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ہر مرحلے میں اپنے مدبرانہ عمل و رفتار اور محکم و استوار عزم سے بڑے بڑے فتنوں اور سازشوں کا سدباب کیا ہے ۔ گویا ان آزمائشوں سے گزرنے کے لئے قدرت نے ان کا انتخاب کیا تھا کیونکہ کوئی اور ان کو تحمل نہیں کرسکتا تھا اور یہ وہ حقیقت ہے جو صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر محقق جانتا اور تائید کرتا ہے ۔ معصومۂ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام(ص) نے کہ جن کی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ(س) کی حیات کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیا ہے ۔ ام المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ(س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے سفر سے جب بھی پلٹٹے بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ(س)کی احوال پرسی کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا : خدا نے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا، کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟! تو رسول اکرم(ص) نے جواب دیا :
«فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں»
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام(ص)
نے جناب فاطمہ(س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا :
خدا نے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا،
کسی نے سوال کیا : پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟!
تو رسول اکرم(ص) نے جواب دیا :
«فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں»