اقبال نے حضرت فاطمہ زہرا(س) کے کردار کو عورتوں کے لئے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بیٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تما م عورتوں کے لئے نمونہ ہے۔
فررع تسلیم را حاصل بتول
مادراں رااسوہ کامل بتول
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند
اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے۔ انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے لئے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا۔ اسی لئے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں۔
اگر پندے ز درو یشے پذیری
ہزار اُمت بمیرد تو نہ میری!
بتو لے باش و پنہاں شواز یں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری!