معصومۂ عالم کی زندگی کے آخری ایام میں، ام المؤمنین جناب ام سلمہ ان کی ملاقات کو آتی ہیں، احوال پرسی کرتی ہیں اور ام المصائب حضرت زہرا(س) جواب میں فرماتی ہیں : میرا حال یہ ہے کہ بابا پیغمبر اسلام(ص) کے فراق نے غم و اندوہ اور ان کے وصی پر کئے جانے والے مظالم نے الم و افسوس میں گھیر رکھا ہے، خدا کی قسم لوگوں نے ان کی حرمت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور ان کے مقام امامت و رہبری کو کتاب خدا کی تنزیل اور نبی خدا کے ذریعے کی گئی تاویل کے خلاف ان سے چھین لیا ہے ۔ خدا کی قسم اگر خلافت کی زمام جس طرح کہ خدا کے رسول(ص) نے ان کے ہاتھوں میں دی تھی، اگر ان کے ہاتھ میں رہنے دیتے اور ان کی اطاعت و پشتپناہی کرتے تو وہ ان کی بڑی ہی نرم روی سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے اور فلاح و نجات کے صاف و شفاف شیریں چشمے سے ان کو سیراب کردیتے ۔
نبی اکرم(ص) کے بعد حضرت علی(ع) کو ملت اسلامیہ کی عام قیادت سے محروم کردینا اور اسلامی معاشرہ سے اس کی مادی و معنوی رفاہ و فلاح چھین لینا کتنا بڑا تاریخی ظلم ہے جو پوری عالم بشریت پر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کو، اس وقت صرف حضرت زہرا(س) نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ اور جب ایک سننے والا ملا تو ام المؤمنین ام سلمہ کے سامنے اس کا اعلان کردیا۔ جی ہاں ! صرف وہ سمجھیں تھیں کہ کس ہدایت و بینہ اور ترقی و کمال کی ظرفیت سے معاشرہ کو محروم کردیا گیا ہے ۔ علی ابن ابی طالب(ع) کا سراسر وجود حق تھا اور ان سے صراط مستقیم کی شعاعیں پھوٹتی تھیں ایک چشمہ حکمت تھا جو ہر قسم کی آمیزش اور نجاست سے پاک تھا اور رہروان حق کی تشنگی دور کرسکتا تھا کیونکہ وہ جو کہتے تھے سب سے پھلے خود اس پر عمل کرتے تھے، دراصل، رسول اسلام(ص) اپنے بعد کے تمام حالات سے باخبر تھے لہذا انہوں نے خدا کے حکم سے فاتح خیبر حضرت علی(ع) کے لئے حضرت زہرا کی مانند ہمسر نہیں بلکہ ایک محکم و استوار پشتپناہ منتخب کیا تھا ۔ اسی لئے امیرالمؤمنین(ع) کی ولایت کے حامیوں میں، درخشاں ترین ذات، حضرت زہرا(ع)کی ذات والا صفات تھی، جن کے مقام و منزلت کے اظہار و اعلان میں رسول اسلام(ص) نے خاص اہتمام سے کام لیا اور حق و باطل کی شناخت کے لئے حضرت زہرا(س) کو معیار و میزان قرار دے دیا ۔ اگرچہ علی ابن ابی طالب(ع) کی ولایت و امامت کے مخالفین کے مقابلے میں، حضرت علی(ع) کے ساتھ تن تنہا حضرت زہرا کی معیت ان کی حقانیت کے ثبوت کے لئے کافی ہے ۔ لیکن دختر رسول(ص) نے اس پر قناعت نہیں کی۔ دختر رسول(ص) نے اپنے پورے وجود اور وسائل و اختیارات کے ساتھ اس ناانصافی کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ۔ اس سلسلے میں، علی و فاطمہ کی مشکل یہ تھی کہ ابھی مسلمانوں کے اندر وہ بلوغ فکری پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ مسئلہ ولایت کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور نہ ہی دشمنان ولایت کی نیتوں کی بھرپور شناخت ممکن ہوسکی تھی ۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات قابل یقین نہیں تھی کہ جو افراد کل تک ہرقدم پر نبی(ص) کے ساتھ تھے انہیں اس قدر جلد مقام و منصب کی خواہش اسلام اور پیغمبر اسلام(ص)سے اس طرح دور کر دے گی !!