بهشت ارغوان | حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها

بهشت ارغوان | حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها

ختم صلوات

ختم صلوات به نیت سلامتی و تعجیل در ظهور امام زمان (عج الله تعالی فرجه الشریف)

طبقه بندی موضوعی

۳۶ مطلب با موضوع «تغییر زبان :: اردو» ثبت شده است

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں

1۔ جناب مریم بنت عمران

2 ۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)

3 ۔ جناب خدیجہ بنت خویلد

 4 ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

" پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 )

حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(ص)کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(ص)کے 9 نام ہیں۔

فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(ص)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(ص)کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

اسم مبارک : حضرت فاطمہ زھرا(ص)

کنیت : ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن، ام الائمہ و ام ابیھا ۔

 القاب : زھرا، بتول، صدیقہ، کبری، مبارکہ، عذرہ، طاھرہ، و سیدۃ النساء ۔

 والد : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

والدہ : ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ۔

 ولادت : 20 جمادی الاخر، بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ

مقام ولادت : شہر مکہ معظمہ ۔

وفات : 11 ھجری بروز پیر

مقام وفات : شہر مدینہ منورہ

مقام دفن : نامعلوم

 پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص)کی رحلت کے بعد مصیبتوں نے حضرت زھرا(س)کے دل کو سخت رنجیدہ، ان کی زندگی کو تلخ اور ناقابل تحمل بنا دیا تھا ۔ ایک طرف تو پدر بزرگوار سے اتنی محبت تھی کہ ان کی جدائی اور دوری برداشت کرنا ان کے لئے بہت سخت تھا ۔ دوسری طرف خلافت کے نام پر اٹھنےوالے فتنوں نے حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کرکے وجود مطہر حضرت زھرا(س)کو سخت روحانی و جسمانی اذیت پہونچائی ۔ یہ رنج وغم اور دوسری مصیبتیں باعث ہوئیں کہ حضرت زھرا(س)پیامبراسلام(ص)کے بعد گریہ و زاری کرتی رہتی تھیں کبھی اپنے بابا رسول خدا(ص)کی قبر مبارک پر زیارت کی غرض سے جاتی تھیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور کبھی شھداء کی قبروں پر جاتیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور گھر میں بھی گریہ و زاری برابر رہتا تھا ۔ چونکہ آپ(س)کا گریہ مدینہ کے لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے قبرستان بقیع میں ایک چھوٹا سا حجرہ بنا دیا جسکو"" بیت الحزن""  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت زہرا(س)حسنین علیھم السلام کو لیکروہاں چلی جاتی تھیں اور رات دیر تک وہاں گریہ کرتی تھیں ۔ جب شب ہوجاتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام جاتے اور حضرت زہرا(ص)کو گھر لاتے ۔ یہاں تک کہ آپ مریض ہوگئیں ۔ پیامبر اسلام(ص)کے فراق میں حضرت زہرا(ص)کا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام(ص)کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنےلگتی تھیں ۔


 اور بے حال ہوجاتی تھیں ۔ بلال جو رسول(ص)کے زمانے میں مؤذن تھے انھوں ‎نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اب کسی کے لۓ اذان نہیں کہوں گا ۔ ایک دن حضرت زھرا(س)نے کہا کہ میں پدر بزرگوار کے مؤذن کی آواز سننا چاہتی ہوں ۔ یہ خبر بلال تک پہونچی اور ‌حضرت زہرا(ص)کے احترام میں اذان کہنے کے لۓ کھڑے ہوگۓ ۔ جیسے ہی بلال نے اللہ اکبر کہا حضرت زہرا(ص)گریہ نہ روک سکیں اور جیسے ہی بلال نے کہا اشھد ان محمدا رسول اللہ حضرت زہرا(س)نے ایک فریاد بلند کی اور بیہوش ہوگئیں ۔ لوگوں نے بلال سے کہا کہ اذان روک دو۔ رسول(ص)کی بیٹی دنیا سے چلی گئی۔ بلال نے آذان روک دی جب حضرت زہرا(س)کو ہوش آیا تو کہا بلال آذان کو تمام کرو ۔ بلال نے انکار کیا اور کہا کہ اس آذان نے مجھے ڈرا دیا ہے ۔ آپ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو آپ نے کنیز کو پانی لانے کا حکم دیا تاکہ غسل کرکے نیا لباس پہن لیں کیونکہ بابا سے ملاقات کا وقت بہت قریب تھا، کنیز نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے غسل کرکے نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنے بستر پر جا کر قبلہ کی طرف منہ کرکے لیٹ گئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں بند اورلب خاموش ہوگۓ اور آپ جنت میں چلی گئیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ علی علیہ السلام نے وصیت کے مطابق غسل و کفن دیکر شب کی تاریکی میں آپکے جسد اطہر کو سپرد خاک کردیا لیکن آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا اور اب تک پوشیدہ ہے اس لۓ تاکہ کوئی  یہ  نہ جان سکے کہ آپ کی قبر کہاں ہے کیونکہ اس وقت کے سیاسی افراد فاطمہ(س)کی قبر کھود کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر کمر بستہ تھے۔ فاطمہ(س)کی وصیت سے اس وقت اور بعد میں آنے والی تمام نسلوں پر یہ واضح ہوگیا کہ رسول(ص)کی بیٹی فاطمہ(س)پر ظلم ہوا ہےاور فاطمہ(س)ان ظالم افراد سے مرتے دم تک ناراض رہیں ۔ حضرت فاطمہ(س )کی وفات کے بعد علی علیہ السلام تن تنہا رہ گۓ ۔ علی علیہ السلام نے فاطمہ(ص)کی قبر پر بیٹھ کر دھیمی آواز میں کچھ کلمات زبان سے دہراۓ ۔ اور پھر پیغمبر اسلام(ص)کی قبر کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا۔ اے رسول خدا(ص)آپ نے جو امانت میرے سپرد کی تھی میں آپ کو واپس کررہا ہوں، آقا جوکچھ ہم پہ گزر گئی فاطمہ(س)سے دریافت کرلیجۓ گا، وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گی ۔ با الآخر انھیں صدمات کی بنا پر 13 جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی 11 ھجری کو یعنی رحلت پیغمبر(ص)کے 75 یا 90 دن کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی اور اپنے شیعوں کو ہمیشہ کے لۓ غم زدہ کردیا ۔


دیکھنا یہ چاہئیے کہ اس واقعہ میں حق جناب فاطمہ(ع)کے ساتھ ہے یا ابوبکر کے ساتھ ؟مورخین نے لکھا ہے کہ رسول خدا(ص)کی وفات کے دس دن کے بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا ۔(شرح ابن ابی الحدید ج 16، ص 263 )حقائق کی روشنی میں پیغمبر اسلام(ص)کی بیٹی حق پر تھیں کیونکہ وہ کسی ایسی چیز کا  ہرگز مطالبہ نہیں کر سکتی تھیں جو ان کی نہ ہو ۔

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)کو دو طریقوں میں سے ایک طریقہ سے  دیا ہو ۔ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دیدیا ہو ۔

 دوسرا طریقہ یہ کہ اسے علی(ع)اور فاطمہ(ع)کے خاندان  پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہو جو کہ ان کے اختیار میں دیدیا ہو۔

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں اس پر نص موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع)سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر(ص)نے فدک وقف کیا اور پھر آیت ذالقربی کے مطابق وہ آپ کے اختیار میں دیدیا۔ میں نے عرض کی کہ رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(‏ع)کو دیدیا۔  آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ(ع)کو دیا ۔(بحارالانوار، ج96 ص 213)امام زین العابدین(ع)نے فرمایا کہ رسول(ص)نے فاطمہ(ع)کو بطور قطعہ دیا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 102)ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ(ع)جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا ؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگۓ ہو، جناب ابوبکر نے کہا  اے رسول اللہ کی بیٹی ! خدا کی قسم میں رسول اللہ کا سونے، چاندی وغیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں۔ جناب فاطمہ(ع)نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا ؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول(ص) میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجاۓ تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(فتوح البلدان ص 44)


جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع)تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین(ع)نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی اور حکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہرا(ع)نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں جو پہلے گزر چکی ہے امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا ہے کہ رسول خدا(ص)نے حسن(ع)و حسین(ع)اور فاطمہ(ع)کو بلایا اور فدک انہیں دیدیا ۔ اس قسم کی احادیث سے معلوم  ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)و علی(ع)کے خاندان کو دیا جو ولایت اور رہبری کا خاندان تھا ۔ لیکن جن روایات میں وقف وغیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ(ع)کی شخصی اور ذاتی ملکیت تھا جو بعد میں ان کی اولاد کی میراث بنا۔

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ(ع)اور جناب ابوبکر کے درمیان پیدا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا جناب فاطمہ(ع)مدعی تھی کہ رسول خدا(ص)نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے ۔ ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور نتائج ہمیشہ جامعہ اسلامی کے دامن گیر ہوگۓ اور اب بھی ہیں۔ اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاۓ لہذا چند مطالب کی طرف اشارہ ضروری ہے۔

پہلا مطلب : کیا پیغمبر(ص)کو اسلامی حکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں ۔( واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فئی اور خمس   وغیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اس نظرئیے کی تردید ہوتی ہے، کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر(ص)اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ کہ منصب اور حکومت کا ۔


ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہئیے لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہئیے لہذا پیغمبر(ص)کے لۓ جو ہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کی ملک تھا اپنی بیٹی ‎ جناب فاطمہ(ع)کو بخش دیتے۔ لیکن اس اعتراض کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان  صفحات پر تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اسے مختصر اور نتیجہ خیز طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلام کے حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر(ص)کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر(ص)کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جاۓ کہ آپ کا شخصی مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر(ص)کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قسم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیشی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تاکہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں۔ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا(ص)نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دئیے تھے کہ جنھیں اصطلاح میں "" اقطاع "" کہا جاتا ہے۔

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص)نے زمین کے چند قطعات بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبد الرحمان بن عوف اور جناب ابودجانہ وغیرہ کو عنایت فرما دئیے تھے ۔(فتوح البلدان ص 21)

 

 ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا(ص)نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دیدیا تھا ۔(فتوح البلدان ص 34۔)\r\nبلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص)نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دیدیا ۔(فتوح البلدان ص 27)بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا(ص)نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب(ع)کو عنایت فرما دیۓ تھے ۔(فتوح البلدان ص 27)۔ پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہۓ کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تاکہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے ۔ پیغمبر(ص)نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے ۔ حضرت علی(ع)اور جناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گۓ تھے۔ بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا(ص)فدک کی آراضی کو جناب زہرا(‏ع)کو بخش دیں۔ صرف اتنا مطلب رہ جاۓ گا کہ آیا جناب رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو بخشا بھی تھا یا نہیں تو اس کے اثبات کے لۓ وہ اخبار اور روایات جو پیغمبر(ص)سے منقول ہیں کافی ہیں کہ آپ نے فدک فاطمہ(ع)کو بخش دیا تھا، نمونہ کے طور پر ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ) نازل ہوئی تو رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ(ع)سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102 ۔ در منشور، ج 4 ص 177)

عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ ) نازل ہوئی تو جناب رسول خدا(ص)نے جناب فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا ۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102)

جناب امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ )نازل ہوئی تو پیغمبر(ص)نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ(ذالقربی)کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا(ص)نے امام حسن(ع)اور امام حسین(ع)اور جناب فاطمہ(ع)کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لۓ فدک تم کو دیتا ہوں ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق(ع)کی خدمت میں عرض کیا کہ آیا رسول خدا(ص)نے فدک جناب فاطمہ(ع)کو دیا تھا ؟ آپ(ع)نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ(ع)کے لۓ‌ معین ہوا تھا ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)


 امام جعفر صادق(ع)نے فرمایا کہ جناب فاطمہ(ع)حضرت ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا ۔ جناب ابوبکر نے کہا  اپنے مدعا کے لۓ گواہ لاؤ توجناب ام ایمن گواہی کے لۓ حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز کی گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا(ص)کے پاس آۓ اور عرض کی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(وآت ذالقربی حقہ )پیغمبر(ص)نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ(ع)ذی القربی ہیں پس رسول خدا(ص)نے فدک فاطمہ(ع)کو دیدیا ۔(درمنشور، ج 4 ص 177)

اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا(ص)اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ(ع)کے اختیار میں دے دیں تاکہ اس کے ذریعے سے حضرت علی(‏ع)کی اقتصادی حالت(جس نے اسلام کے راستے میں جہاد اور فداکاری کی ہے )مضبوط رہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذوالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں وارد ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اسکے جواب میں دو مطالب میں سے ایک کو اختیار کیا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئیں ہیں ۔ آیت(ولا تقتلواالنفس )اور آیت(ولا تقربوا الزنا )اور آیت(اولئک الذین یدعون )اور آیت(اقم الصلو ۃ )اور آیت(ذی القربی )۔(تفسیر المیزان تالیف استاد علامہ طباطبائی )

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا۔

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے جس کا نام فدک ہے۔ مدینہ سے وہاں تک دو دن کا راستہ ہے ۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا ۔ صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ جگہ تھی ۔ یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب 7 ھجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی ۔

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی اس خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ تحریر کیا۔  اس صلح نامہ کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگۓ ۔

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص)کو دیدیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرار داد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص)کو دیدیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص)کی ذات کا ہوگیا اور یہ علاقہ بغیر جنگ کۓ پیغمبر(ص) کے ہاتھ آ گیا۔  اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کۓ فتح ہوجاۓ وہ رسول(ص)کا خالص مال ہوا کرتا ہے ۔ یہ قانون اسلام کے مسلمہ قوانین میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے ۔ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔

 وما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر، ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القوی وللرسول۔(سورہ حشر 7 ۔ 6)

""یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص)کو دلوایا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ لیکن اللہ اپنے پیغمبر(ص)کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا تمام چیزوں پر قادر ہے ۔ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے لۓ مخصوص ہیں۔ ""

 

لہذا اس میں کسی کو شک بھی نہیں ہونا چاہۓ کہ فدک پیغمبر(ص) کےخالص اموال میں سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص)کو ملا تھا اور پیغمبر(ص)اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں ۔  آپ اس مال کو حکومت چلانے پر بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تاکہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے۔  آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلا عوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لۓ فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دیدیں ۔ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لۓ مخصوص کر رکھا تھا۔ آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگاۓ۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر باز یار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص)نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگاۓ تھے۔ جب کبھی فدک جناب فاطمہ(ع)کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ کردیتے تھے ۔ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشران بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گۓ اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا۔(شرح ابن ابی الحدید، ج 16،ص217)

پیغمبر(ص)کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہاشم کے فقراء اور ابن سبیل کو دیدیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے۔

پیغمبر(ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی ان کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کے وہ کمرے کہ جس میں آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کا شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن وغیرہ، تلوار،زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گاۓ وغیرہ ۔ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام(ص) مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔(مناقب شہر آشوب، ج 1، ص168 ۔ کشف الغمہ ج2 ص،122) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملکیت تھیں اور آپ کی وفات کے بعد یہ اموال آپ کے ورثہ کی طرف منتقل ہوگۓ ۔

حسن بن وشاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے، تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء، صہباء اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا ء اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والے گوسفند، چالیس اونٹنیاں دودھ دینے والی، ذوالفقار نامی ایک تلوار، ایک زرہ بنام ذات الفصول، عمامہ بنام سحاب، دو عدد برد یمانی ایک انگوٹھی،ایک عدد عصا بنام ممشوق، لیف کا ایک فرش، دوعدد عبا کئی چمڑے کے تکۓ ۔ پیغمبر(ص)یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں حضرت فاطمہ(ع) کی طرف سواۓ زرہ،شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں ۔ تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کو دیۓ گۓ ۔(کشف الغمہ، ج 2 ص 122)

وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی(سورہ احزاب 33) کہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں ازواج پیغمبر(ص)کو حکم دیا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاھلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تبھی تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی رہو ۔ لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لۓ کافی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی نسبت دیدینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہیں اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا۔ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طر ف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر ہوا کرتا ہے ۔ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لۓ معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کراۓ پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لۓ ایک ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا اس لۓ کہا جاتا تھا جناب عائشہ کا گھر یا ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبراکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیۓ تھے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلاۓ کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا لہذا کہنا پڑے گا کہ ازواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص)کی زندگی میں رہ رہیں تھیں۔ حضرت فاطمہ(ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیۓ رکھا ۔ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہۓ کہ رسول خدا(ص)نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ورثاء کی طرف منتقل ہو‌ۓ اور قانون وراثت اور آیات وراثت میں وہ شامل ہیں ۔

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوۓ ہیں انھوں نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک ہی تھا اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگۓ ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود تھا ۔ مثلا حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ(ع)نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے باپ کی میراث کا مطالبہ کیا جناب فاطمہ(ع)نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا ۔

اول: پیغمبر(ص)کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے ۔

دوم: فدک

سوم: خیبر کا باقی ماندہ خمس

جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ(ع) کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جاۓ وہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد(ع)بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے ۔ خدا کی قسم میں رسول خدا(ص)کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق عمل کروں گا ۔ جناب ابوبکر تیار نہ ہوۓ کہ کوئی چیز جناب فاطمہ(ع)کو دیں اسی لۓ جناب فاطمہ(ع) ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا( شرح ابن ابی الحدید ج16،ص 217)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ(ع) نے ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا(ص)کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ ان کے وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں۔

 جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا کہ پس رسول خدا(ص)کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا ؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر(ص) کے لۓ طعمہ(خوراک )قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح کو قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لۓ قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہۓ کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص219)

 عروہ نے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ(ع) کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذی القربی کے حصے کے مطالبہ کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو بیت المال کا جزو قرار دیدیا(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص231 ) \r\nامام حسن بن علی بن ابی طالب(ع) فرماتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ(ع) اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور ان کے حصے کو بیت المال کا حصہ قرار دے کر اس سے جہاد کے لۓ اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص231 ) ان مطالب سے معلوم ہوجاۓ گا کہ حضرت فاطمہ(ع)فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا(ص) کے ان اموال میں جو مدینے میں تھے اور خیبر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا(ص) کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردۓ گۓ کہ جن کی وجہ سے حضرت فاطمہ(ع) کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگۓ حقیقت اور اصل مطلب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لۓ ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جاۓ اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جاۓ۔

واقعہ فدک اورحضرت زہرا(ع) کا ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ہماری غرض جناب فاطمہ زہرا(ع)کی زندگی کے ان واقعات کی تشریح کرنا ہے جو لوگو ں کے لۓ عملی  درس کی حیثیت رکھتے ہیں البتہ صدراسلام سے لے کر آج تک مورد بحث قرار پانے والے اس حساس اور اہم موضوع پر پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات چاہتے ہیں جس پر زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہۓ اور واقعہ کو علمی اور تحقیقی لحاظ سے مورد بحث قرار دیناچاہۓ لہذا ہم اس موضوع پر ذرا تفصیل سے نظر ڈال رہے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے ۔

دختر رسول حضرت زہرا(س)کی دوسری حکمت عملی کہ جس کا تقریبا" سبھی مورخین نے ذکر کیا ہے  یہ تھی کہ آپ فراق پیغمبر میں بہت زیادہ گریہ کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ  " بکائین تاریخ " میں آپ کا نام بھی شامل ہے وہ زہرا(س)جو بچپن میں ماں کے سایۂ شفقت سے محرومی کے بعد صبر و بردباری کا مجسمہ نظر آتی ہیں آخر باپ کی رحلت کے بعد اس بیتابی کے ساتھ نالہ و شیون کرنا کسی مصلحت سے خالی کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ یقینا" دختر رسول(ص)کا گریہ، اپنے باپ کی امت کو ہوشیار و بیدار کرنے کی غرض سے تھا، باپ کے فراق میں کیا جانے والا یہ گریہ، اس سے بھی بڑی مصیبتوں کے بیان و اظہار کا ذریعہ بن گیا تھا، باپ کی جدائی کے ضمن  میں ہی دختر رسول(ص)امت اسلامیہ کو درپیش خطرات سے انہیں آگاہ فرماتیں ۔ شاید اسی لئے کبھی باپ کی قبر پر، کبھی شہدائے احد کے سرہانے اور کبھی بقیع میں جا کر رویا کرتی تھیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مراکز تھے ۔ اور شاید اسی حساسیت کے تحت علی ابن ابی طالب سے شکایت کی گئی تھی کہ " فاطمہ کو رونے سے منع کیجئے ان کے رونے سے ہمارے کاموں میں خلل پڑتا ہے " حتی وہ درخت کہ جس کے نیچے بیٹھ کر آپ بقیع کے قریب رویا کرتی تھیں کٹوا دیا گیا کہ یہ سلسلہ بند ہوجائے ۔

معصومۂ عالم کی زندگی کے آخری ایام میں، ام المؤمنین جناب ام سلمہ ان کی ملاقات کو آتی ہیں، احوال پرسی کرتی ہیں اور ام المصائب حضرت زہرا(س) جواب میں فرماتی ہیں : میرا حال یہ ہے کہ بابا پیغمبر اسلام(ص) کے فراق نے غم و اندوہ اور ان کے وصی پر کئے جانے والے مظالم نے الم و افسوس میں گھیر رکھا ہے، خدا کی قسم لوگوں نے ان کی حرمت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور ان کے مقام امامت و رہبری کو کتاب خدا کی تنزیل اور نبی خدا کے ذریعے کی گئی تاویل کے خلاف ان سے چھین لیا ہے ۔ خدا کی قسم اگر خلافت کی زمام جس طرح کہ خدا کے رسول(ص) نے ان کے ہاتھوں میں دی تھی، اگر ان کے ہاتھ میں رہنے دیتے اور ان کی اطاعت و پشتپناہی کرتے تو وہ ان کی بڑی ہی نرم روی سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے اور فلاح و نجات کے صاف و شفاف شیریں چشمے سے ان کو سیراب کردیتے ۔

نبی اکرم(ص) کے بعد حضرت علی(ع) کو ملت اسلامیہ کی عام قیادت سے محروم کردینا اور اسلامی معاشرہ سے اس کی مادی و معنوی رفاہ و فلاح چھین لینا کتنا بڑا تاریخی ظلم ہے جو پوری عالم بشریت پر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کو، اس وقت صرف حضرت زہرا(س) نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ اور جب ایک سننے والا ملا تو ام المؤمنین ام سلمہ کے سامنے اس کا اعلان کردیا۔ جی ہاں ! صرف وہ سمجھیں تھیں کہ کس ہدایت و بینہ اور ترقی و کمال کی ظرفیت سے معاشرہ کو محروم کردیا گیا ہے ۔ علی ابن ابی طالب(ع) کا سراسر وجود حق تھا اور ان سے صراط مستقیم کی شعاعیں پھوٹتی تھیں ایک چشمہ حکمت تھا جو ہر قسم کی آمیزش اور نجاست سے پاک تھا اور رہروان حق کی تشنگی دور کرسکتا تھا کیونکہ وہ جو کہتے تھے سب سے پھلے خود اس پر عمل کرتے تھے، دراصل، رسول اسلام(ص) اپنے بعد کے تمام حالات سے باخبر تھے لہذا انہوں نے خدا کے حکم سے فاتح خیبر حضرت علی(ع) کے لئے حضرت زہرا کی مانند ہمسر نہیں بلکہ ایک محکم و استوار پشتپناہ منتخب کیا تھا ۔ اسی لئے امیرالمؤمنین(ع) کی ولایت کے حامیوں میں، درخشاں ترین ذات، حضرت زہرا(ع)کی ذات والا صفات تھی، جن کے مقام و منزلت کے اظہار و اعلان میں رسول اسلام(ص) نے خاص اہتمام سے کام لیا اور حق و باطل کی شناخت کے لئے حضرت زہرا(س) کو معیار و میزان قرار دے دیا ۔ اگرچہ علی ابن ابی طالب(ع) کی ولایت و امامت کے مخالفین کے مقابلے میں، حضرت علی(ع) کے ساتھ تن تنہا حضرت زہرا کی معیت ان کی حقانیت کے ثبوت کے لئے کافی ہے ۔ لیکن دختر رسول(ص) نے اس پر قناعت نہیں کی۔ دختر رسول(ص) نے اپنے پورے وجود اور وسائل و اختیارات کے ساتھ اس  ناانصافی کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ۔ اس سلسلے میں، علی و فاطمہ کی مشکل یہ تھی کہ ابھی مسلمانوں کے اندر وہ بلوغ فکری پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ مسئلہ ولایت کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور نہ ہی دشمنان ولایت کی نیتوں کی بھرپور شناخت ممکن ہوسکی تھی ۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات قابل یقین نہیں تھی کہ جو افراد کل تک ہرقدم پر نبی(ص) کے ساتھ تھے انہیں اس قدر جلد مقام و منصب کی خواہش اسلام اور پیغمبر اسلام(ص)سے اس طرح دور کر دے گی !!




خـــانه | درباره مــــا | سرآغاز | لـــوگوهای ما | تمـــاس با من

خواهشمندیم در صورت داشتن وب سایت یا وبلاگ به وب سایت "بهشت ارغوان" قربة الی الله لینک دهید.

کپی کردن از مطالب بهشت ارغوان آزاد است. ان شاء الله لبخند حضرت زهرا نصیب همگیمون

مـــــــــــادر خیلی دوستت دارم