پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں
1۔ جناب مریم بنت عمران
2 ۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)
3 ۔ جناب خدیجہ بنت خویلد
4 ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون(کشف الغمہ ج 2 ص 76)
" پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج 2 ص 76)
پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 )
حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(ص)کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(ص)کے 9 نام ہیں۔
فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(ص)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(ص)کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)
اسم مبارک : حضرت فاطمہ زھرا(ص)
کنیت : ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن، ام الائمہ و ام ابیھا ۔
القاب : زھرا، بتول، صدیقہ، کبری، مبارکہ، عذرہ، طاھرہ، و سیدۃ النساء ۔
والد : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
والدہ : ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ۔
ولادت : 20 جمادی الاخر، بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ
مقام ولادت : شہر مکہ معظمہ ۔
وفات : 11 ھجری بروز پیر
مقام وفات : شہر مدینہ منورہ
مقام دفن : نامعلوم
پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص)کی رحلت کے بعد مصیبتوں نے حضرت زھرا(س)کے دل کو سخت رنجیدہ، ان کی زندگی کو تلخ اور ناقابل تحمل بنا دیا تھا ۔ ایک طرف تو پدر بزرگوار سے اتنی محبت تھی کہ ان کی جدائی اور دوری برداشت کرنا ان کے لئے بہت سخت تھا ۔ دوسری طرف خلافت کے نام پر اٹھنےوالے فتنوں نے حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کرکے وجود مطہر حضرت زھرا(س)کو سخت روحانی و جسمانی اذیت پہونچائی ۔ یہ رنج وغم اور دوسری مصیبتیں باعث ہوئیں کہ حضرت زھرا(س)پیامبراسلام(ص)کے بعد گریہ و زاری کرتی رہتی تھیں کبھی اپنے بابا رسول خدا(ص)کی قبر مبارک پر زیارت کی غرض سے جاتی تھیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور کبھی شھداء کی قبروں پر جاتیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور گھر میں بھی گریہ و زاری برابر رہتا تھا ۔ چونکہ آپ(س)کا گریہ مدینہ کے لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے قبرستان بقیع میں ایک چھوٹا سا حجرہ بنا دیا جسکو"" بیت الحزن"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت زہرا(س)حسنین علیھم السلام کو لیکروہاں چلی جاتی تھیں اور رات دیر تک وہاں گریہ کرتی تھیں ۔ جب شب ہوجاتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام جاتے اور حضرت زہرا(ص)کو گھر لاتے ۔ یہاں تک کہ آپ مریض ہوگئیں ۔ پیامبر اسلام(ص)کے فراق میں حضرت زہرا(ص)کا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام(ص)کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنےلگتی تھیں ۔
اور
بے حال ہوجاتی تھیں ۔ بلال جو رسول(ص)کے زمانے میں مؤذن تھے انھوں نے یہ
ارادہ کرلیا تھا کہ اب کسی کے لۓ اذان نہیں کہوں گا ۔ ایک دن حضرت
زھرا(س)نے کہا کہ میں پدر بزرگوار کے مؤذن کی آواز سننا چاہتی ہوں ۔ یہ خبر
بلال تک پہونچی اور حضرت زہرا(ص)کے احترام میں اذان کہنے کے لۓ کھڑے ہوگۓ
۔ جیسے ہی بلال نے اللہ اکبر کہا حضرت زہرا(ص)گریہ نہ روک سکیں اور جیسے
ہی بلال نے کہا اشھد ان محمدا رسول اللہ حضرت زہرا(س)نے ایک فریاد بلند کی
اور بیہوش ہوگئیں ۔ لوگوں نے بلال سے کہا کہ اذان روک دو۔ رسول(ص)کی بیٹی
دنیا سے چلی گئی۔ بلال نے آذان روک دی جب حضرت زہرا(س)کو ہوش آیا تو کہا
بلال آذان کو تمام کرو ۔ بلال نے انکار کیا اور کہا کہ اس آذان نے مجھے ڈرا
دیا ہے ۔ آپ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو آپ نے کنیز کو پانی لانے کا
حکم دیا تاکہ غسل کرکے نیا لباس پہن لیں کیونکہ بابا سے ملاقات کا وقت بہت
قریب تھا، کنیز نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے غسل کرکے نیا لباس زیب تن
فرمایا اور اپنے بستر پر جا کر قبلہ کی طرف منہ کرکے لیٹ گئیں ۔ تھوڑی دیر
کے بعد آنکھیں بند اورلب خاموش ہوگۓ اور آپ جنت میں چلی گئیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
علی علیہ السلام نے وصیت کے مطابق غسل و کفن دیکر شب کی تاریکی میں آپکے
جسد اطہر کو سپرد خاک کردیا لیکن آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا اور اب تک
پوشیدہ ہے اس لۓ تاکہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ آپ کی قبر کہاں ہے کیونکہ اس
وقت کے سیاسی افراد فاطمہ(س)کی قبر کھود کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر
کمر بستہ تھے۔ فاطمہ(س)کی وصیت سے اس وقت اور بعد میں آنے والی تمام نسلوں
پر یہ واضح ہوگیا کہ رسول(ص)کی بیٹی فاطمہ(س)پر ظلم ہوا ہےاور فاطمہ(س)ان
ظالم افراد سے مرتے دم تک ناراض رہیں ۔ حضرت فاطمہ(س )کی وفات کے بعد علی
علیہ السلام تن تنہا رہ گۓ ۔ علی علیہ السلام نے فاطمہ(ص)کی قبر پر بیٹھ کر
دھیمی آواز میں کچھ کلمات زبان سے دہراۓ ۔ اور پھر پیغمبر اسلام(ص)کی قبر
کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا۔ اے رسول خدا(ص)آپ نے جو امانت میرے سپرد کی
تھی میں آپ کو واپس کررہا ہوں، آقا جوکچھ ہم پہ گزر گئی فاطمہ(س)سے دریافت
کرلیجۓ گا، وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گی ۔ با الآخر انھیں صدمات کی بنا پر
13 جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی 11 ھجری کو یعنی رحلت پیغمبر(ص)کے 75 یا
90 دن کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی اور اپنے شیعوں کو ہمیشہ کے لۓ غم زدہ
کردیا ۔