پیغمبر(ص) کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی ان کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کے وہ کمرے کہ جس میں آپ(ص) کی ازواج رہتی تھیں آپ کا شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن وغیرہ، تلوار،زرہ، نیزہ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گاۓ وغیرہ ۔ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام(ص) مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔(مناقب شہر آشوب، ج 1، ص168 ۔ کشف الغمہ ج2 ص،122) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملکیت تھیں اور آپ کی وفات کے بعد یہ اموال آپ کے ورثہ کی طرف منتقل ہوگۓ ۔
حسن بن وشاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے، تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء، صہباء اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا ء اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والے گوسفند، چالیس اونٹنیاں دودھ دینے والی، ذوالفقار نامی ایک تلوار، ایک زرہ بنام ذات الفصول، عمامہ بنام سحاب، دو عدد برد یمانی ایک انگوٹھی،ایک عدد عصا بنام ممشوق، لیف کا ایک فرش، دوعدد عبا کئی چمڑے کے تکۓ ۔ پیغمبر(ص)یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں حضرت فاطمہ(ع) کی طرف سواۓ زرہ،شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں ۔ تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کو دیۓ گۓ ۔(کشف الغمہ، ج 2 ص 122)
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی(سورہ احزاب 33) کہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں ازواج پیغمبر(ص)کو حکم دیا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاھلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تبھی تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتی رہو ۔ لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لۓ کافی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی نسبت دیدینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہیں اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا۔ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طر ف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر ہوا کرتا ہے ۔ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لۓ معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کراۓ پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوی کے لۓ ایک ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا اس لۓ کہا جاتا تھا جناب عائشہ کا گھر یا ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبراکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیۓ تھے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلاۓ کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا لہذا کہنا پڑے گا کہ ازواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص)کی زندگی میں رہ رہیں تھیں۔ حضرت فاطمہ(ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیۓ رکھا ۔ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہۓ کہ رسول خدا(ص)نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ورثاء کی طرف منتقل ہوۓ اور قانون وراثت اور آیات وراثت میں وہ شامل ہیں ۔