بهشت ارغوان | حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها

بهشت ارغوان | حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها

ختم صلوات

ختم صلوات به نیت سلامتی و تعجیل در ظهور امام زمان (عج الله تعالی فرجه الشریف)

طبقه بندی موضوعی

۱۴۸ مطلب با موضوع «تغییر زبان» ثبت شده است

 حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا   کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت،  اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی  اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے  ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا  اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔  وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔



یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے  ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔ 

مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔

آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف  میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔

مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟

حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔  چونکہ مشیت الٰھی بھی  یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی  رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ  زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ  میرے نزدیک ھیں ۔  علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟

حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا  مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے  ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔

شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی  اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے  بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔


حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں .

جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے   بچپن میں بہت سے  ناگوار  حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں  سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو  اسلام کے  دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔  مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

 

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ  باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے  اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں :

" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن  پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :

" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :

 "خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ کہتی ھیں : میں یہ  بات کہہ کر بہت شرمندہ  ھوئی اور  میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔

حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ  اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔

ولادت

 حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختیاف ہے۔  لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی  ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔

پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے  رشد  پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔


نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔


ایک   عیسیٰ   پہ  بھلا  ناز  کریں  کیا     مریم            رشتے سب حضرت زہرا کے ہیں عصمت والے


 ذاتی طور پر تمام فضل و کمال ذات اقدس الہی سے مخصوص ہے اور ماسوا اللہ جو بھی ہے اور جو کچھ بھی ہے خداوند قدوس سے نسبت اور انتساب کی بنیاد پر ہی الہی تجلیوں کا مصدر و مرکز قرار پاتا ہے چنانچہ اشرف مخلوق اور احسن تقویم کے مصداق انسانوں کے درمیان مردوں میں ختمی مرتبت ، سید الانبیاء و المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور عورتوں کے درمیان خاتون محشر سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وہ بلند ترین و مقدس ترین ہستیاں ہیں جن کو خداوند عالم نے حدیث قدسی میں مقصود کائنات قراردیا ہے ۔" لَو لَاکَ لَمَا خَلَقتُ الاَفلَاک " اور " لَو لَا فَاطمَۃ لَمَا خَلَقتُکُمَا "اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ پوری دنیا ان ہی دونوں کے صدقےمیں خلق ہوئی ہے ۔

قرآنی آیات اور خود مرسل اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت و گفتار میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسبت رمزوں اور کنایوں میں جوکچھ کہا گیا ہے اور معصومین علیہم السلام نے اپنے اقوال و ارشادات میں ان کی جو تشریح و توضیح کی ہے وہ اس مقدس ذات کےعرفان کے لئے کافی ہے ۔ قرآن کریم میں خدا کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مادر گرامی حضرت مریم (ع) کے تقدس میں جن صفات و خصوصیات کا ذکر ہے اگر ان کے ساتھ نبی اکرم (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے صفات و خصوصیات کا ایک سرسری موازنہ کیا جائے تو یقینا´آپ کے فضل و شرف کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہو جائے گی اور صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ حضرت زہرا (ع) کی شان و عظمت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوران کی ماں حضرت مریم علیہا السلام سے بھی بالا و برتر ہے ، قرآن کریم میں حضرت مریم (ع) کی تقریبا´بیس خصوصیات ذکر ہوئی ہیں اور اسلامی روایات میں جن خصوصیات کی طرف اشارہ ہے اگر وہ بھی شامل کرلیں تو جناب مریم (ع) کی تقریبا´چالیس خصوصیات وہ ہیں جو ان کو دنیا کی دوسری خواتین سے ممتاز و مقدس قراردیتی ہیں لیکن اسلامی دنیا کے لئے کس قدر افتخار کا مقام ہے کہ قرآن و روایات میں یہ تمام خصوصیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے اور زیادہ بہتر انداز میں بیان ہوئی ہیں ۔

دراصل صدر اسلام میں کچھ ایسے حالات سامنے آئے کہ رسول اعظم(ص) کی رسالت ، امیرالمومنین (ع) کی ولایت اور قرآن و سنت کی حفاظت و صیانت کا دفاع کرنے کے باعث ایک افسوسناک مہم کےتحت رسول اسلام (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے مقام قدس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور نہ صرف یہ کہ آپ کی عصمت و طہارت کے ذکر سے اجتناب کیا گیا بلکہ ان کے حقیقی مقام اور منزلت کوبھی چھپانے اور انکار کرنے کی کوشش ہوئی اور عرصے تک جہالت و تعصب کا یہ سلسلہ جاری رہا اور بات یہاں تک پہنچی کہ موت کے بعد آپ (ع) کی قبر اطہر کو بھی مخفی رکھنا پڑا جس کی کوئی دلیل پیش نہ کرسکنے کے سبب بعض مسلمانوں نے ، سیرت پیغمبر (ص) کے خلاف ، کلی طور پر مومن و مومنہ کے احترام اور قبروں کی زیارت کو شرک قرار دے کر مزاروں کے انہدام کو اسلام کا ایک حصہ بنا دیا اور سرزمین اسلام سے بے شمار مقدس مقامات کے نشانات مٹا دئے گئے ۔

اب چونکہ صاحبان علم و تحقیق کے درمیان خصوصا´تاریخی شخصیتوں کے تعارف اور پہچان کے لئے تاریخ کی مقبول و محترم مشہور شخصیتوں کے ساتھ ، عظمت و احترام کے اعتبار سے مشترک ہستیوں کا تقابلی مطالعہ ایک اچھا اور موثر طریقہ سمجھا جاتا ہے اور علمی دنیا میں اپنے اور پرائے سبھی کے یہاں یہ روش رائج ہے ہم نے بھی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان کو سمجھنے کے لئے آپ کی شخصیت کا جناب مریم کے صفات و خصوصیات کےپس منظر میں جائزہ لیا ہے ۔

اسلامی روایات کا اگر جائزہ لیں تو رسول اعظم اور ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے بھی مختلف مناسبتوں سے تاریخ اسلام کی ان دو منتخب خواتین کے درمیان موازنہ کرتے ہوئےحضرت زہرا (س) کے فضائل بیان فرمائے ہیں :ایک موقع پر خود حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے کسی کو قانع کرنے کے لئے مرسل اعظم (ص) سے سوال کیا تھا : بابا ! میں بہتر ہوں یا مریم ؟ تو جواب میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا :

"انت فی قومک و مریم فی قومہا "

تم اپنی قوم (ملت اسلامیہ ) کے درمیان اور مریم اپنی قوم (ملت عیسیٰ کے درمیان ) بہتر ہیں ۔

ام المومنین جناب ام سلمہ (رض)نے جس وقت مسجد النبی(ص) میں اٹھ کر جناب فاطمہ زہرا(ع) کی حمایت کی تھی تو کہا تھا :

"فاطمہ بہترین و منتخب ترین خاتون ، جوانان اہل بہشت کے سرداروں کی ماں ، عدیلہ اور مثیل مریم ہیں "

حضور اکرم (ص) کے مشہور صحابی ، شاعر اسلام حضرت حسان ابن ثابت انصاری (رض) نے بھی ایک شعر میں کہا ہے :

وَ انّ مَریَمَ اُحصَنَت فَرجَھَا وَ جَائَت بعیسیٰ کَبَدر الدّجیٰ

                                                              فَقَد اَحصَنَت فَاطمَۃُ بَعدہا وَجَائَت بسبطی نَبیّ الہُدیٰ

 بے شک مریم (ع) ایک باعفت ، پاکدامن خاتون ہیں جنہوں نے بدرالدجی کی مانند عیسیٰ مسیح (ع) کو جنم دیا لیکن فاطمہ(ع) وہ با عفت بیوی ہیں جنہوں نے ان کے بعد مجسّمۂ ہدایت نبی اکرم (ص) کے دو بیٹے ہمارے حوالے کئے ہیں ۔

سبطین رسول (ص) کی ماں ہونے سے قطع نظر، مرسل اعظم (ص) نے اپنی اس بیٹی کو " امّ ابیہا " ( اپنے باپ کی ماں ) کا خطاب بھی عطا کیا ہے جو دنیا میں کبھی کسی باپ نے اپنی بیٹی کو عطا نہ کیا ہوگا اور ان سب سے بالاتر خداوند عالم نے " آیۂ مباہلہ " میں رسول اسلام (ص) کی نسبت حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے " نسائنا " کی عجیب و غریب تعبیر استعمال کی ہے جو تمام مورخین ، محدثین اورمفسرین کی نگاہ میں متفقہ طور پر صرف اور صرف جناب فاطمہ (س) سے مخصوص ہے اور تمام خواتین عالم پر ان کی فضیلت و صداقت کی بہترین دلیل ہے ۔

اب اگر مسلمانوں نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس تقدس اوراحترام کو باقی رکھا ہوتا اور عیسائیوں کے درمیان جناب مریم (ع) کا جو احترام ہے مسلمانوں میں اس سے بھی بالاتر حضرت فاطمہ (س) کا جو مقام ہے دنیا کے سامنے پیش کیا ہوتا اور عالم اسلام میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تعظیم و تقدیس مسلّم و مرسوم ہوتی تو اسلام میں عورت کے اعلیٰ ترین وقار و احترام پر مبنی واضح ترین و ناقابل انکار ترین دلیل مسلمانوں کے اختیار میں ہوتی اورمغربی دنیا اسلام میں "عورتوں کے حقوق کی پامالی " سے متعلق سفید جھوٹ بولنے کی کبھی جرات نہ کرتی ۔


کس قدر تعجب خیز ہے کہ آج دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا دیندار عیسائی ملے جو حضرت مریم (ع) کے تقدس اور احترام کا قائل نہ ہو مگر عالم اسلام میں سینکڑوں مسلمان یا تو رسول اسلام (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے مقام و منزلت کا علم نہیں رکھتے یا جانتے بھی ہیں تو مصلحتوں کےتحت اس کے اعلان و اظہار سے کتراتے ہیں حتی حج اکبر کے عظیم اجتماع میں بھی بعض اوقات ایسے سیدھے سادھے مسلمان مل جاتے ہیں جو دختر رسول (ص) کے نام و مقام سے بالکل واقفیت نہیں رکھتے ۔

نظریاتی اختلافات کہاں نہیں ہیں ؟ عیسائیوں کے درمیان کیتھولکس اور پروٹسٹینٹس کے درمیان اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ ان میں جنگ و خونریزی کے سینکڑوں واقعات ہوچکے ہیں مگر کوئی حضرت عیسیٰ (ع) یا حضرت مریم (ع) کے تقدس کو پامال نہیں کرتا۔ پروٹسٹینٹس کے رہنما مارٹن لوتھر بھی اپنی بغاوت کے باوجود حضرت مریم (ع) کے احترام کے قائل تھے ، اورتمام عیسائی حضرت مریم (ع) کے تقدس پر متفق ہیں اور اپنی مشکلوں میں " اے مریم مقدس " کہہ کر آواز لگاتے ہیں ،ایسے میں کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ بہت سے مسلمان اب بھی حضرت فاطمہ زہرا(س) کی صحیح شناخت و معرفت سے محروم ہیں جبکہ آپ (ع) کی حضرت مریم (ع) پر فضیلت وبرتری قرآن و روایات کی روشنی میں مسلم ہے ۔

قرآن حکیم نے حضرت عیسیٰ (ع) کی ماں حضرت مریم(ع) کے تقدس اورفضیلت و برتری کی ایک وجہ ان کی خاندانی نجابت کو قرار دیا ہے اور ان کے خاندان کا منتخب خاندانوں کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

"ان اللہ اصطفی آدم و نوحا´و آلَ ابراہیم و آلَ عمران علی العالمین " ( آل عمران / 33)

بے شک اللہ نے آدم و نوح کو اورآل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین کے درمیان منتخب قراردیا ہے ۔

خداوند عالم نے اپنی اس عظیم کتاب قرآن کا ایک پورا سورہ جناب مریم (ع) کے نام سے اور ایک سورہ آل عمران سے منسوب کیا ہے چنانچہ تاریخ کی روشنی میں جناب مریم (ع) کا سلسلہ آل ابراہیم (ع) اور آل عمران (ع) دونوں سے منسلک ہے جناب مریم (ع) ماثان کے خاندان سے تھیں جو حضرت داود (ع) کے فرزندوں میں سے ہیں اور جناب داود کا آل اسحق کے ذریعے آل ابراہیم (ع) میں شمار ہوتا ہے ۔جناب عمران خود جناب مریم (ع) کے والد تھے اور ہیراڈوس کے زمانۂ حکومت میں ،خاندان نبوت و دیانت کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے ۔اس کے مقابلے میں رسول اعظم (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) کی خاندانی نجابت تمام مسلمانوں پرروشن و واضح ہے ،مذکورہ آیت کی ہی روشنی میں ، جناب اسمعیل ذبیح اللہ(ع) کے ذریعے آپ کا سلسلۂ نسب جناب ابراہیم (ع) سے ملتا ہے اور خدا کی منتخب " آل ابراہیم " میں ہونے کے علاوہ آپ (ع) خدا کے منتخب ترین " اہلبیت اطہار " کا مرکز و محور بھی ہیں اور آیۂ تطہیر کے ذیل میں تمام مفسرین نے بالاتفاق لکھا ہے کہ چادر تطہیر میں جمع پنجتن پاک (ع) کا تعارف کرتے وقت اللہ نے جناب فاطمہ (س) کو ہی مرکز قرار دیا تھا اور فرمایا تھا :

" ھم فاطمۃُ و ابوہا و بعلہا و بنوہا "

(وہ فاطمہ اوران کے باپ ،ان کے شوہر اور ان کے بچے ہیں۔)


اس کے علاوہ سورۂ ابراہیم (ع) میں "شجرۂ طیبہ " سے مراد (آیت /24 ) جناب فاطمہ زہرا (ع) کا خاندان ہے اور سورۂ نور میں "بیوت " سےمراد (آیت /36 ) جناب فاطمہ زہرا(ع) کا گھر ہے ۔

خداوند عالم نے سورۂ دہر یا سورۂ " انسان " میں ہل اتی کا مصداق اہلبیت رسول (ع) کو قرار دیا ہے اورسورۂ شوریٰ کی آیۂ مودت (آیۃ /23 ) میں نیز سورۂ اسراء کی آیت " وآت ذی القربی " میں بھی " قربیٰ " کا مصداق اہلبیت رسول (ع) ہیں (آیت / 26 ) اوران تینوں آیتوں میں جناب فاطمہ (ع) مرکزی کردار کی حامل ہیں چنانچہ اس سلسلے میں صاحب الغدیر علامہ امینی (رح) نے نو طریقوں سے اہلسنت کی روایات نقل کی ہیں جو بتاتی ہیں کہ قربیٰ سے مراد اہلبیت رسول (ع) ہیں ۔ اہلسنت کی روایات میں اس بات کا بھی اعتراف موجود ہے کہ قرآن حکیم کے سورۂ توبہ کی 119 ویں آیت میں " صادقین " سے مراد اہلبیت (ع) ہیں جناب فاطمہ (ع) جن کی ایک فرد ہیں سورۂ واقعہ کی 11 ویں آیت میں " السابقون " اور" المقربون " سے مراد اہلبیت رسول (ع) ہیں، جناب فاطمہ (ع) جن کی ایک فرد ہیں اور سورۂ حمد کی چھٹی آیت میں صراط مستقیم سے بھی مراد اہلبیت (ع) نبوت و رسالت ہیں جن میں جناب فاطمہ (ع) شامل ہیں ۔

جہاں تک والدین کا سوال ہے جناب مریم (ع) کے والد جناب عمران کا سلسلۂ نسب مشہور مورخ ابن اسحاق کے مطابق 14 واسطوں سے جناب داود (ع) تک پہنچتا ہے ، قرآن حکیم نے جناب عمران کو بنی اسرائیل کے " اہل صلواۃ " میں شمار کیا ہے وہ خدا کے مومن اورپاکیزہ بندہ تھے ۔ مورخین نے ان کو اپنے زمانے کے بڑے علماء اور کاہنوں میں شمار کیا ہے لیکن قرآن کی روشنی میں ان پر خدا کی طرف سے وحی ہوئی ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول روایت اور امام محمد باقر علیہ السلام کی صراحت کے مطابق جناب عمران بھی اپنی قوم کے درمیان نبی تھے ۔

دوسری طرف جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پدر گرامی حضرت محمد ابن عبداللہ (ص) ، خدا کے آخری رسول ہیں جو تمام دنیا کے سردار اور افضل الاولین و الآخرین ہیں ۔

جناب مریم (ع) کی ماں حنہ تھیں جن کو قرآن نے " اذ قالت امراتُ عمرانَ " سے یاد کرتے ہوئے ایک عبادت گزار، بزرگ و پارسا عورت قرار دیا ہے ۔ جن کے یہاں جناب عمران سے شادی کے 35 سال بعد تک کوئی اولاد نہیں ہوئی ، دعا و نذر کے بعد جناب مریم (ع) پیدا ہوئیں اور چونکہ پیدائش سے قبل ہی جناب عمران انتقال فرما گئے جناب حنہ نے اپنی نذر پوری کرتے ہوئے بیٹی کو بیت المقدس میں معتکف کردیا اور خدا نے ان کی کفالت اپنے نبی جناب زکریا(ع) کےسپرد کردی جو جناب مریم (ع) کے حقیقی خالو تھے ۔

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مادر گرامی ام المومنین حضرت خدیجۂ طاہرہ (ع) تھیں جو سب سے پہلے رسول اعظم (ص) کی رسالت پر ایمان لائیں اورزندگی کی آخری سانسوں تک حضوراکرم (ص) کی " رفیقۂ مقصد " بنی رہیں ۔ شادی سے قبل بھی اپنی بے نظیر تجارت کے باعث مال و دولت کی کثرت اور داد و دہش کی شہرت کے ساتھ عزت و وقار کی حامل " ملیکۃ العرب " کہی جاتی تھیں اور نبی اکرم (ص) کی بعثت کے بعد جب ایک دنیا اسلام اورپیغمبر اسلام کی مخالف ہوگئی تھی آپ (ع) نے اپنا پورا سرمایہ اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کی کفالت کے لئے وقف کردیا قرآن نے جس کا ذکر سورۂ ضحیٰ کی آٹھویں آیت میں رسول اکرم (ص) کو خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا ہے کہ : " وَوَجدکَ عائلا´ فَاَغنیٰ " یعنی تم کو تنگ دست پایاتو (مال خدیجہ کے ذریعہ) غنی کردیا ۔

چنانچہ مشہور مفسر ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : خداوند عالم نے جب لوگوں کویہ کہتے دیکھا کہ پیغمبر (ص) فقیر ہیں اور ان کے پاس مال و دولت نہیں ہے تو خدیجہ (ع) کےمال کے ذریعے ان کو غنی اور بے نیاز کردیا ۔

رسول اسلام (ص) نےبھی ایک حدیث میں فرمایا ہے: دین اسلام دو چیزوں سے محکم و استوار ہوا ہے ایک علی ابن ابی طالب (ع)کی شمشیر تھی اور دوسری خدیجہ(ع) کی دولت و ثروت تھی ۔

اسلامی روایات میں ہے کہ جناب خدیجہ (ع) ان چار منتخب خواتین میں سے ہیں کہ جنت جن کی مشتاق و متمنی ہے ۔ مرنے کے بعد وہ جناب مریم (ع) اور جناب آسیہ کی ہمدم قرارپائی ہیں ۔ام المومنین خدیجۂ طاہرہ (ع) کا یہ مقام ہے کہ وہ جناب فاطمہ زہرا (س) کےحمل کے دوران نبی اکرم (ص) سے فرماتی تھیں کہ فاطمہ بطن میں ان سے باتیں کرتی ہیں اور تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں ۔

جس وقت جناب مریم (ع) کی ولادت ہوئی ان کی ماں حنہ کے پاس دایہ کے فرائض جناب زکریا کی بیوی " ایشاع " یا الیزبت نے انجام دئے اور اسلام کی معتبر روایات کی روشنی میں سنہ 5 بعثت میں جناب فاطمہ (س) کی ولادت کے وقت چونکہ قریش کی عورتوں نے آپ کا بائیکاٹ کررکھا تھا ۔جناب خدیجہ (ع) کی زچگی کے فرائض انجام دینے کے لئےخداوند عالم نے بہشت بریں سے حضرت آدم (ع) کی بیوی حوا، زن فرعون حضرت آسیہ ، حضرت موسیٰ (ع) کی بہن کلثوم اور حضرت عیسیٰ (ع) کی ماں حضرت مریم (ع) کو زمین پر بھیجا اور خانۂ نبوت و رسالت میں گوہر عصمت کا ظہور ہوا ۔

جناب مریم کے لئے جیسا کہ قرآن کہتا ہے ان کی ماں نے کہا تھا :" انّی سَمّیتُہَا مَریََم "        (آل عمران / 36 )

یعنی : میں نے ان کا نام مریم رکھا ، مریم کے معنی عابدہ اور خدمتگار کے ہیں ۔


تو رسول اعظم (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا نام خود خداوند متعال نے فاطمہ قراردیا ہے اور بڑے بڑے علمائے اہلسنت قسطلانی ، زرقانی ، غسانی ، خطیب بغدادی ، اور حافظ دمشقی نے اپنی کتابوں میں روایات نقل کی ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) کا نام خدا کی جانب سے معین ہوا ہے ۔ صادق آل محمد(ص) فرماتے ہیں " خدا کے نزدیک حضرت فاطمہ (س) کے نو نام ہیں : فاطمہ ، صدیقہ ، مبارکہ ، طاہرہ ، زکیہ ، راضیہ ، مرضیہ ، محدثہ اور زہرا " جناب فاطمہ (ع) کی پرورش ام المومنین خدیجہ (ع)اورفخر انبیا حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی آغوش میں ہوئی ، جناب مریم (ع) نے بیت المقدس میں زندگی گزاری اور حضرت زہرا (ع) نے کاشانۂ رسالت میں زندگی بسر کی جس کے لئے خدا نے سورۂ نور میں فرمایا ہے :

"فی بُیُوت اَذنَ اللّہُ اَن تُرفَعَ وَ یُذکَرَ فیہَا اسمُہُ " (نور/ 36 )

یہ ان گھروں میں ہے جن کے لئے خداکا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے ۔

جناب مریم (ع)نے بیت المقدس کی ایک محراب کو عبادت کےلئے مخصوص کیا تھا جس کے لئے قرآن کہتا ہے :

" کُلّمَا دَخَلَ عَلَیہَا زکَریّا اَلمحراب ، وَجدَ عندَھَا رزقا´۔۔۔ "

جب زکریا ان کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تو مریم کے پاس رزق دیکھتے ، پوچھتے یہ کہاں سے آیا تو وہ جواب دیتی تھیں یہ سب خدا کی طرف سے ہے ۔

جناب فاطمہ زہرا (ع)نے بھی ایک محراب خدا کی عبادت کے لئے مخصوص کررکھی تھی جس کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : " اذا قامت فی محرابہا زَہَر نورُہا لاَہل السماء "

(جس وقت جناب فاطمہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ان کے نور کی تابندگی اہل آسمان کو خیرہ کردیتی تھی ۔) ایک اور روایت میں نبی اکرم (ص)نے فرمایا ہے کہ جب وہ محراب میں کھڑی ہوتی تھیں تو ستر ہزار فرشتے ان کو سلام کرتے تھے اور مریم (ع) کی طرح انہیں بھی آواز دیتے تھے کہ اے فاطمہ خدا نے تم کو منتخب قراردیا ہے تم صاحب تطہیر ہو اور دنیا کی تمام عورتوں سے افضل ہو ۔ جہاں تک آسمانی غذاؤں کے نزول کا سوال ہے تاریخ اسلام میں کئی مواقع پر آپ (ع) کے لئے اور آپ (ع) کے بچوں کے لئے بہشت سے غذا نازل ہوئی ہے اورجیسا کہ سورۂ دہر کی آیتوں سے پتہ چلتا ہے حضرت فاطمہ زہرا (ع) کے ہاتھوں کی پکائی ہوئی روٹیاں ، خدا کے فرشتے سائل بن کر لے گئے ہیں جو آپ کے بلند مرتبہ کی دلیل ہے ۔

جناب مریم کے لئے قرآن کہتا ہے : " وَ انبَتَہَا نَبَاتا´حَسنا´۔           (آل عمران / 37 )

جس سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ان کے" نشوو نما " کے لئے پاکیزہ ماحول کا انتظام کیا کہ ان کے وجود کی شاخیں محکم و استوار ہوں اور شیطانی وسوسوں سے طیب و طاہر رہیں ۔ تو جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو خدا نے کوثر قراردیا اور دشمنان اسلام کے جواب میں ، جو نبی اکرم کو " ابتر " یعنی مقطوع النسل کہتے تھے ، خدا نے انہیں فاطمہ (ع) کے ذریعے "خیر کثیر " کا مصدر اور فاطمہ(ع) کونسل کثیر کی مادر قرار دیا اور اس شجر عصمت کے آخری پھول امام مہدی موعود (عج) ہیں جو آج بھی زندہ ہیں ، اور جب غیبت کا پردہ چاک ہوگا مریم (ع) کے بیٹے حضرت عیسیٰ (ع) بھی چرخ چہارم سے آئیں گے اور فرزند فاطمہ (س) کی امامت میں نماز ادا کریں گے ۔

جئے جاتے ہیں اسی ایک تمنا میں مسیح   
جئے جاتے ہیں اسی ایک تمنا میں مسیح   

                اک نماز ایسی بھی پڑھ لیں جوفرادیٰ نہ رہے

 جناب مریم (ع) کی طہارت کےلئے خدا نے فرمایا ہے :" یَا مَریَم ان اللہ اصطَفاک و طَہّرک"

( اے مریم اللہ نے تم کو منتخب اور پاک و طاہر بنایا ہے) اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اوران کے اہل خاندان کے لئے خدا نے آیۂ تطہیر نازل کی ہے اور کم ازکم اہلسنت کے بیس بڑے بڑے محدثین ومفسرین نے لکھا ہے کہ آیۂ تطہیر ، اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ان میں نمایاں تریں فرد جناب فاطمہ زہرا(ع) ہیں۔

ہے وہاں "طہّرک " اور یہاں تطہیرا 
کہاں مریم کومیسر یہ طہارت  کا  مزاج
آئی ہے چادر زہرا میں سکوں لینے  کو    
  ہے عیاں آیۂ تطہیر سے عصمت کا مزاج 

ہمارا فرض یہ ہے کہ خود کو اس خاندان سے منسوب کرنے کے لائق بنائیں ۔ البتہ خاندان رسالت ، ان کے اعزاء اور ان کی ولایت میں معروف لوگوں سے منسوب ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ زیارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ہم ، آپ کی محبت اور دوستی میں مشہور ہیں ۔ اس سے ہمارا فرض اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ یہ خیر کثیر ،

جس کی خوش خبری خداوند عالم نے سورہ کوثر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دی اور کہا ہے ، انا اعطیناک الکوثر ، ہم نے تمہیں خیر کثیر عطا کیا تو اس کی تفسیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں ۔

دراصل وہ ان تمام خیروں و بھلائی کا سرچشمہ ہیں جو روز بہ بروز دین محمدی کے آبشاروں سے ، تمام انسانیت اور تمام خلق خدا کو نصیب ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگوں سے اسے چھپانے اور اس سے انکار کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو پائے ، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ، اور اللہ تو اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے بھلے ہی کافروں کو برا لگے ، ہمیں خود کو نور کے اس منبع سے قریب کرنا چاہئے ۔ اور نور کے مرکز سے قربت  کا لازمہ اور نتیجہ ، نورانی ہونا ہے ۔ ہمیں عمل کے ذریعے ، خالی محبت کے ذریعے ہی نہیں ، نورانی ہونا چاہئے ۔ 

یہ وہ کام ہے جس کی تاکید ہماری محبت ، ولایت اور ایمان کرتا ہے اور ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس کام سے ہمیں اس خاندان کا حصہ اور اس سے منسوب ہونا چاہئے ۔

ایسا نہیں ہے کہ علی کے گھر کا قنبر بننا آسان کام ہے ، ایسا نہیں ہے کہ سلمان منا اھل البیت کے منزل تک پہنچنا آسان ہے ، ہم اہل بیت کے پیروکار اور ان سے محبت کرنے والے ، ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنوں میں اور اپنی چوکھٹ پر بیٹھنے والوں میں شمار کریں ، وہ کہیں کہ فلاں ہماری درگاہ کے خاک نشینوں میں سے ہے ۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اہل بیت ہمارے بارے میں ایسا سوچیں ، لیکن یہ کوئی آسان بات نہیں ہے ۔ یہ  صرف دعوا کرنے سے ملنے والی چیز نہیں ہے ۔ اس کے لئے ، عمل ، قربانی و ایثار اور ان کے اتباع کی ضرورت ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بڑی مختصر عمر میں بہت سے فضائل حاصل کئے ؟ کس عمر میں ان فضیلتوں کو حاصل کیا ؟ کس عمر میں اتنے عظمتوں تک پہنچ گئیں ؟ بہت چھوٹی عمر میں ، اٹھارہ برس ، بیس برے ، پچیس برس ، روایتیں مختلف ہیں ۔ یہ ساری فضیلتیں یونہی حاصل نہیں ہوتیں ، امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ ، خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کا امتحان لیا ، خداوند عالم کا نظام ، حساب کتاب کے ساتھ ہے ۔ جو کچھ عطا کرتا ہے حساب سے عطا کرتا ہے ۔ اسے اپنی اس خاص کنیز کی قربانیوں و معرفت کا بخوبی علم ہے اسے لئے اس نے انہیں اپنی برکتوں کے سرچشمے سے جوڑ دیا ۔

           عمل میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکار ہونا چاہئے ، ہمیں اسی راستے پر آگے بڑھنا چاہئے ، چشم پوشی کرنا چاہئے ، قربانی دینا چاہئے ، خدا کی اطاعت کرنی چاہئے ، عبادت کرنی چاہئے  ۔ کیا ہم نہیں کہتے کہ انہوں نے اتنی عبادت کی کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا ، اتنی عبادت ! ہمیں بھی خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی خدا کے ذکر کرنا چاہئے ۔ ہمیں بھی اپنے دلوں میں روز بروز خدا کی محبت میں اضافہ کرنا چاہئے کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ نقاہت کے عالم میں مسجد گئیں تاکہ اپنا حق واپس لے سکیں ؟ ہمیں بھی ہر حالت میں حق کی واپسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے ، کیا ہم یہ کہتے کہ وہ ، تن تنہا اپنے زمانے کے اس بڑے سماج کے سامنے کھڑی ہو گئیں ؟ ہمیں انہی کی طرح جیسا کہ ان کے شوہر نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ ہدایت کے لئے ساتھیوں کی کم تعداد سے نہیں ڈرتی تھیں ہمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے ظلم و سامراج سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے ، کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے ایسا کام کیا کہ ان کے اور ان کے شوہر اور بچوں کے بارے میں سورہ دہر نازل ہوا ؟ غریبوں کے لئے قربانی و ایثار ، بھوکی رہ کر ؟

و یوثرون علی انفسھم ولو کان بہم خصاصہ ، ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے ۔

 یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کا دم بھریں ، ان کی محبت کا دم بھریں جنہوں نے بھوکے کا پیٹ بھرنے کے لئے ، اپنے چہیتوں ، حسن و حسین اور ان کے  والد کے ہاتھوں سے لقمہ لے کر فقیر کو دے دیا ، ایک دن نہیں ، دو دن نہیں ، تین دن ! کیا ہم نہیں کہتے کہ ہم ایسی شخصیت کے پیروکار ہیں ؟ لیکن ہم نہ صرف یہ کہ اپنا لقمہ کسی حاحت مند کو نہیں دیتے ، بلکہ اگر ہمارا بس چلے تو کسی غریب کا لقمہ بھی چھین لیں ! یہ کافی اور دیگر کتابوں میں جو روایت ہے شیعوں کی علامتوں کے بارے میں ، اس کا مطلب یہی ہے ۔ یعنی شیعہ کو ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی زندگی میں ان کی زندگی کی جھلک لانی چاہئے بھلے یہ جھلک بہت ہی ہلکی ہی کیوں نہ ہو ۔ ہم کہاں اور بزرگ شخصیتیں کہاں ؟ ہم کہاں اور وہ بارگاہ کہاں ؟ ظاہر ہے ہم تو ان کے مقام کے قریب پھٹکنے کی سوچ بھی نہیں سکتے لیکن ہمیں خود کو ان کے جیسا ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہم ان اہل بیت کی زندگی کی مخالف سمت میں تو نہیں بڑھ سکتے وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ ہم تو اہل بیت کے چاہنے والے ہیں ۔ کیا یہ ہو سکتا ہے ؟ مثال کے طور پر   کوئی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے زمانے میں ، اس قوم کے  دشمنوں میں سے کہ جن  کے بارے میں امام خمینی ( رح) ہمیشہ گفتگو کیا کرتے تھے ،  کسی کا اتباع کرتا ، تو کیا وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ امام خمینی کا پیروکار ہے ؟ اگر کوئی ایسی بات کرتا تو کیا آپ لوگ ہنستے نہیں؟ یہی صورت حال اہل بیت کے معاملے میں  ہے ۔

 

 تڑک بھڑک اور عیش و عشرت کے ساتھ  حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکارنہیں بنا جا سکتا ہمیں اپنی اہلیت و صلاحیت کو ثابت کرنا ہوگا ۔ کیا ہم نہیں کہتے کہ ان کا جہیز ایسی چیزیں تھیں جن کا نام سن کر آدمی کی آنکھیں برس پڑتی ہیں ؟ کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ دینا اور دنیا کی خوبصورتیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم دن بہ دن اپنے سامان عیش و عشرت اور تڑک بھڑک میں اضافہ کرتے جائیں ، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے .

آج کوثرولایت ، مادر امامت، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا یوم ولادت باسعادت ہے۔  پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یگانہ روزگار بیٹی اور قرۃ العین الرسول بعثت کے پانچویں سال اس دنیا میں تشریف لائیں اورخانہ وحی میں اپنے پدربزرگوارکے دامن تربیت میں پروان چڑھیں اورعلم ومعرفت اورکمال کی اعلی منزلیں بھی آپ کے کمال لازوال  کے سامنے ھیچ نظرآئیں ۔

ہجرت کے دوسرے سال آپ، امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے  رشتہ  ازدواج میں منسلک ہوئیں -

رسول اسلام کی لخت جگرنے حضرت علی علیہ السلام کے کاشانہ علم ومعرفت میں بحیثیت ایک زوجہ ذمہ داریوں اورفرائض کا اعلی ترین نمونہ پیش کیا اورایک ماں کی حیثیت سے رہتی دنیا تک لئے ایسی لافانی مثال قائم کی کہ ماں کی آغوش سے اولاد کومعراج عطا ہونے لگی ۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ اگرکسی دن کوی وم نسواں یا پھر روز مادر سے منسوب کرنا ہے تو شہزادی کونین کے یوم ولادت باسعادت سے بہترموقع یا دن اورکون ہو سکتا ہے

اسی مناسبت سے آج کے دن اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان یوم نسواں یا روز مادر مناتے ہیں ۔ شوہر اپنی شریک حیات کی زحمتوں اور اسی طرح اولاد اپنی ماؤں کی شفقتوں اور ان کی لازوال محبتوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کوتحفے اورتحائف پیش کرتے ہیں اوریوں اس مبارک دن کو کوثرولایت کے یوم ولادت کے طور پر ایک خوبصورت معنوی جشن سے معمور کرتے ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اس دن کی مناسبت سے اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 " انا اعطیناک الکوثر ۔ فصل لربک وانحر ۔ ان شانئک ھو الابتر "

بشریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی احسان مند ہے ، ان کا فیض ، انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک ہی محدود نہیں ہے اگر ہم حقیقت پر مبنی اور منطقی نظر سے دیکھیں تو ، ہمیں نظر آئے گا کہ پوری انسانیت پر ان کا احسان ہے یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ جس طرح سے انسانیت پر اسلام ، قرآن ، انبیائے خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات  کا احسان ہے ۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے ۔ آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے اور روز بروز اسلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معنویت کا نور زیادہ واضح ہوتا جائے گا اور بشریت اسے زیادہ واضح طور پر محسوس کرے گی ۔


 

ورد عن الثعلبی فی ( قصص الأنبیاء ) ، و الزمخشری فی ( الکشاف ) فی تفسیر قوله تعالى : ( کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا المِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقاً ) ، (آل عمران : 37 ) .

فی خبر طویل نقتطف منه ما یلی : قال رسول الله ( صلى الله علیه وآله ) لفاطمة ( علیها السلام ) : ( یَا بُنَیَّة هَلْ عندک شیء آکل ؟، فإنی جائع ) .

فقالت ( علیها السلام ) : ( لا و الله ، بأبی أنت و أمی ) .

فلما خرج رسول الله ( صلى الله علیه و آله ) من عندها ، بَعَثَت إِلیها جارةٌ لها بِرَغِیفَیْنِ ، و بضعة لحم .

فأخذَتْهُ ( علیها السلام ) منها ، و وضعته فی جفنة ، و غطت علیه ، و قالت : ( لأُوثِرَنَّ بها رسول الله ( صلى الله علیه وآله ) على نفسی ، و من عندی ) ، و کانوا جمیعاً محتاجین إلى شبْعَة من طعام .

فبعثت حَسَناً و حسیناً إلى جَدِّهِما ( صلى الله علیه وآله ) ، فرجع ( صلى الله علیه وآله ) إلیها ، فقالت ( علیها السلام ) : ( بأبی أنت و أمی یا رسول الله ، قد أتانا الله بشیء فخبأتُه لک ) .

فقال ( صلى الله علیه وآله ) : ( فَهَلُمِّی به ) فَأْتِی به ، فکشفت ( علیها السلام ) عن الجفنة ، فإذا هی مملوءة خبزاً و لحماً .

فلما نظرَتْ ( علیها السلام ) إلیه بهتَت ، و عرفت أنها برکة من الله تعالى ، فحمدت الله تعالى ، و صلّت على نبیه ( صلى الله علیه وآله ) .

فقال ( صلى الله علیه وآله ) : ( من أین لک هذا یا بُنَیَّة ؟ ) .

قالت ( علیها السلام ) : ( هو من عند الله ، إن الله یرزق من یشاء بغیر حساب ) .

فقال رسول الله ( صلى الله علیه وآله ) : ( الحمد لله ، جعلک شبیهة بسیِّدة نساء بنی إسرائیل ، فإنها کانت إذا رَزَقها الله رزقاً حسناً ، فسُئلت عنه ، قالت : هو من عند الله ، إن الله یرزق من یشاء بغیر حساب ) .

فبعث الرسول ( صلى الله علیه وآله ) إلى علی ( علیه السلام ) ، فَأتَى .

فأکل الرسول و علی و فاطمة و الحسن و الحسین ( علیهم السلام ) ، و جمیع أزواج النبی ( صلى الله علیه وآله ) ، حتى شبعوا ، و بقیت الجفنة کما هی .

فقالت فاطمة ( علیها السلام ) : ( و أوسعت منها على جمیع جیرانی ، و جعل الله فیها برکة ، و خیراً طویلاً ) .

و کان أصل الجفنة رغیفین ، و بضعة لحم ، و الباقی برکة من الله تعالى .

و عن الحسن البصری ، و ابن إسحاق ، عن میمونة قالت : وَجدتُ فاطمة ( علیها السلام ) نائمة ، و الرَحى تدور ، فأخبرتُ رسول الله ( صلى الله علیه وآله ) بذلک فقال : ( إن اللهَ عَلِمَ ضَعفَ أَمَتِهِ ، فَأوحى إِلى الرَّحى أَن تدورَ ، فَدَارَتْ ) .

و رهنت ـ مرَّةً ـ فاطمة ( علیها السلام ) کسوة لها عند امرأة زید الیهودی فی المدینة ، و استقرضت الشعیر ، فلما دخل زید داره ، قال : ما هذه الأنوار فی دارنا ؟! ، قالت : لِکِسوَةِ فاطمة ( علیها السلام ) .

فأسلَمَ فی الحال ، و أسلَمَت امرأتُه و جیرانُه ، حتى أسلم ثمانون نفساً .

و عن علی بن معمر  قال : خرجَتْ أمُّ أَیمَن إلى مکة ، بعد وفاة فاطمة ( علیها السلام ) ، و قالت : لا أرى المدینة بعدها .

فأصابها عطش شدید فی الجحفة ، حتى خافت على نفسها ، فکسرت عَینَیها نحو السماء ، ثم قالت : یَا ربِّ ، أَتَعَطِّشَنِی ، و أنا خَادمة بنت نبیک ( صلى الله علیه وآله ) .

قال : فنزل إلیها دَلوٌ من ماء الجنَّة ، فَشَرِبَتْ ، و لم تَجُعْ ، وَ لَمْ تَعطَشْ سَبع سِنین .

و ما ذکرناه شیء یسیر من کرامات فاطمة الزهراء ( علیها السلام ) .




خـــانه | درباره مــــا | سرآغاز | لـــوگوهای ما | تمـــاس با من

خواهشمندیم در صورت داشتن وب سایت یا وبلاگ به وب سایت "بهشت ارغوان" قربة الی الله لینک دهید.

کپی کردن از مطالب بهشت ارغوان آزاد است. ان شاء الله لبخند حضرت زهرا نصیب همگیمون

مـــــــــــادر خیلی دوستت دارم